مالدار باپ پر اپنے تنگ دست بیٹے کو خرچہ دینا لازم ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

مالدار باپ پر اپنے تنگ دست بیٹے کو خرچہ دینا لازم ہے اسی طرح مالدار بیٹے پر تنگ دست والد کو خرچہ دینا بھی ضروری ہے
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [الطلاق: 6]
”اگر وہی عورتیں تمہارے کہنے پر دودھ پلائیں تو انہیں ان کی اجرت دے دو ۔“
اس آیت میں بچے کو دودھ پلانے کی اجرت اس کے والد پر مقرر کی گئی ہے۔
➋ حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ :
خذى ما يكفيك وولدك بالمعروف
”معروف طریقے سے (مرد کے مال سے ) اتنا مال لے لو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کو کافی ہو جائے۔“
[بخاري: 2211 ، كتاب البيوع: باب من أجرى أمر الأمصار على ما يتعارفون ، مسلم: 1714]
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا [الإسراء: 23]
”تیرے رب نے فیصلہ کیا ہے کہ خاص اسی کی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ احسان کرو ۔“
یقیناََ بوقت ضرورت انہیں خرچہ مہیا کرنا بھی احسان میں سے ہی ہے۔
➋ ایک اور آیت میں ہے کہ :
وَصَاحِبُهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا [لقمان: 10]
”دنیا میں معروف طریقے سے ان کا ساتھ دو ۔“
دنیاوی ضروریات خرچے کے بغیر پوری ہو ہی نہیں سکتیں ۔
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن أطيب ما أكل الرجل من كسبه وولده من كسبه فكلوا من أموالهم
”بلاشبہ سب سے پاکیزہ چیز وہ ہے جو انسان اپنی کمائی سے کھائے اور اس کی اولاد اس کی کمائی سے ہی ہے لٰہذا تم ان کے اموال کھاؤ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 1626 ، صحيح ابو داود: 3013 – 3014 ، كتاب البيوع: باب الرجل يا كل من مال ولده ، ابو داود: 3528 – 3529 ، نسائي: 4449 ، ابن ماجة: 2290 ، ترمذي: 1358]
➍ عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انت و مالك لأبيك
”تم اور تمہارا مال (دونوں) تمہارے والد کے لیے ہے ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 838 ، صحيح ابو داود: 3015 أيضا ، أحمد: 214/2 ، ابو داود: 3530]
(ابن منذرؒ) اہل علم نے اجماع کیا ہے کہ ایسے تنگ دست والدین جن کا نہ تو کوئی ذریعہ معاش ہو اور نہ ہی کوئی مال ہو تو ان کا خرچہ اولاد کے مال میں سے واجب ہے اور اسی طرح انسان پر اپنے ان (چھوٹے) بچوں کا خرچہ بھی واجب ہے جن کے پاس ابھی کوئی مال نہیں ۔
[المغنى: 373/11]
(ابن قدامہؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[أيضا]
◈ واضح رہے کہ نفقہ کے وجوب کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا موجود ہونا ضروری ہے:
➊ اولاد یا والدین فقراء وتنگ دست ہوں ان کے پاس کوئی مال نہ ہو اور نہ ہی کوئی ایسا ذریعہ معاش ہو جس کے ذریعے وہ دوسروں کے (اُن پر ) خرچہ کرنے سے مستغنی ہو سکتے ہوں ۔
➋ جس پر خرچہ واجب ہو رہا ہے اس کے پاس اپنے نفس کے خرچہ سے زائد مال موجود ہو۔
[المغنى: 374/11]
جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے کہ :
وإذا كان أحد كم فقيرا فليبدأ بنفسه فإن فضل فعلى عياله فإن كان فضل فعلي قرابته
”تم میں سے جب کوئی فقیر ہو تو (خرچ میں ) اپنے نفس سے ابتدا کرے ، اگر زائد مال موجود ہو تو اپنے اہل وعیال پر (خرچ کرے ) اور اگر اور بھی زائد مال ہو تو اپنے اقرباء پر (خرچ کرے ) ۔“
[مسلم: 693/2 ، كتاب الزكاة: باب الابتداء فى النفقة بالنفس ثم أهله ثم القرابة ، ابو داود: 352/2 ، نسائي: 5215 – المجتبى ، أحمد: 305/3]
ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے پاس ایک دینار ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تصدق به على نفسك
”اسکے ذریعے اپنے اوپر صدقہ کرو ۔“
پھر اس نے کہا میرے پاس ایک اور ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تصدق بــه عـلـى ولدك
”اس کے ذریعے اپنی اولاد پر صدقہ کرو ۔“
[حسن: صحيح أبو داود: 1483 ، كتاب الزكاة: باب فى صلة الرحم ، ابو داود: 1691 ، عن أبى هريرة]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے