قرآن کی نظر میں غیر اللہ سے مدد مانگنا کیسا ہے؟
حفیظ الرحمن قادری لکھتے ہیں کہ آج اس بارے میں بڑا شور مچایا جاتا ہے، بلکہ اشتہارات بھی لگائے جاتے ہیں یا للہ مدد صرف اللہ سے مانگو کوئی داتا نہیں کوئی دینے والا نہیں اس قسم کے اشتہارات آپ پڑھتے رہتے ہوں گے ۔ (شرک کیا ہے صفحہ : 81)
الجواب :
قارئین محترم مدد مانگنا دو طرح کا ہوتا ہے ایک ماتحت الاسباب دوسرا مافوق الاسباب قرآنی دلائل شروع کرنے سے پہلے ان الفاظ کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیوں کہ یہاں ان پڑھ لوگوں کو دھوکہ دیا جاتا ہے اور مسئلہ بتانے میں دونوں طرح کی مدد کا فرق واضح نہیں کیا جاتا جس سے عوام الناس دھوکے بازوں کے مکروفریب کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
مدد کی دو بنیادی اقسام
① ماتحت الاسباب کا مفہوم
آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو دارالاسباب بنایا ہے ہر مقصد کے حصول کے لیے کچھ نہ کچھ اسباب موجود ہیں جن کو اپنا کر ہم اپنا مطلوبہ مقصد حاصل کرتے ہیں مثلاً حصول صحت کے لیے دوا استعمال کرتے ہیں اور یہ کام انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی کرتے رہے حصول رزق کے لیے کوشش اور محنت ہے حصول اولاد کے لیے شادی وغیرہ کے اسباب اختیار کیے جاتے ہیں۔
ہمارا عقیدہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کام کے کرنے کے لیے اسباب وغیرہ کا محتاج نہیں ہے وہ چاہے تو بغیر اسباب کے بھی محض اپنی قدرت کاملہ واختیار سے کوئی کام کر دے ہمیں یہ حکم ہے کہ ہم ان اسباب کو ترک نہ کریں بلکہ ان اسباب کو اختیار کرتے ہوئے پھر بھی مکمل بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی رکھیں۔
جو کام ہم ان اسباب عادیہ کو بروئے کار لا کر کرتے ہیں اسے ماتحت الاسباب کہتے ہیں۔ مثلا کسی کو بھوک لگی ہو تو وہ کھانا طلب کرتا ہے اس کو چاہیے کہ کھانا حاصل کرنے کی پوری کوشش کرے پیاس لگی ہو تو پانی تلاش کرے اگر اس کے پاس کوئی آدمی موجود ہو تو اس سے پانی طلب کرے شریعت اسلامیہ میں اس کی ہرگز ممانعت نہیں ہے یا کوئی شخص بیمار ہو تو وہ ڈاکٹر کو بلائے یا خود چل کر جائے اپنی حاجت بتائے حصول صحت کے لیے دوا طلب کرے اس کے کہنے کے مطابق دوائی استعمال کرے شریعت کی رو سے جائز اور درست ہے بلکہ سنت ہے۔
کیوں کہ یہ اسباب کے اندر رہ کر سب کچھ کر رہا ہے جہاں سبب موجود ہوں وہاں کسی سے مدد طلب کرنا جائز ہے مثلا کوئی شخص ڈوب رہا ہے تو وہ اپنے آپ کو بچانے کی پوری کوشش کرے۔ کسی سہارے کو تلاش کرے تا کہ اس کی مدد سے بچ سکے یا وہاں کوئی آدمی موجود ہو تو اسے مدد کے لیے بلائے یہ بھی شریعت کی رو سے جائز ہے یوں سمجھیں کہ جس کام کا کسی کے پاس اختیار ہو اور وہ سبب بھی موجود ہو تو مدد کے لیے بلانا جائز اور درست ہے کیونکہ اسباب کے تحت لوگوں کی مدد کے انبیاء علیہم السلام بھی طلب گار تھے ان کو بھی ماتحت الاسباب لوگوں کی مدد کی ضرورت تھی۔
قرآن سے ماتحت الاسباب کی مثالیں
چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے مدد مانگی تھی :
يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا اَنْصَارَ اللهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِينَ مَنْ أَنْصَارِى إِلَى اللهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ (سورۃ الصف : 14)
اے ایمان والو دین خدا کے مددگار ہو جاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کون ہے جو اللہ کی طرف ہو کر میری مدد کرے حواری بولے ہم دین خدا کے مددگار ہیں۔
کیوں کہ یہاں سبب موجود تھا ما تحت الاسباب دینی کام کی دنیاوی ضرورت کے تحت اسباب عادیہ موجود ہونے کی وجہ سے مدد مانگی ایسی مدد تو کسی غیر مسلم سے بھی مانگی جاسکتی ہے مثلا ایک جگہ پر کوئی بوجھل چیز پڑی ہے ہم اس کو اٹھانا چاہتے ہیں مگر اٹھا نہیں سکتے ہمارے پاس ایک غیر مسلم آدمی کھڑا ہے ہم اس کو مدد کا کہہ سکتے ہیں کہ یار یہ بوجھ اٹھوا دو یہ جائز ہے۔ کیوں کہ جس کام کے لیے ہم نے مدد مانگی وہ شخص کام کر سکتا ہے اس کے اختیار میں ہے۔ لہذا سبب کے موجود ہونے کی وجہ سے مدد طلب کرنا درست ہے شرک نہیں ایسی دنیاوی امداد انصار صحابہ رضی اللہ عنہم نے مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم کی فرمائی تھی۔
انصارِ مدینہ کی دنیوی مدد
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (سورۃ التوبہ : 100)
اور سب میں اگلے پہلے مہاجرین اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔
اس آیت مبارکہ میں مہاجرین اور انصار کا ذکر آیا ہے انصار اپنے ہجرت کرنے والے بھائیوں کی مدد تعاون کرنے والے تھے جو کچھ ان کے پاس موجود تھا انہوں نے اپنے مہاجرین بھائیوں کو دے کر ان کی مالی مدد کی تعاون کیا کیوں کہ نیکی کے کام میں اپنے بھائی سے تعاون کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دیا ہے ارشاد ربانی ہے :
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (سورۃ المائدہ : 2)
اور نیکی اور پرہیز گاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔
② مافوق الاسباب کا مفہوم
اور مافوق الاسباب جہاں اسباب عادی موجود نہ ہوں پیاسا شخص یا بیمار یا ڈوبنے والا کسی ایسی ہستی کو پکارتا ہے جو اس سے بہت دور ہے عام اسباب کے تحت اس کی آواز وہاں تک نہیں پہنچ سکتی یا کسی فوت شدہ آدمی کو پکارتا ہے اور اس کا عقیدہ یہ ہے کہ اگرچہ سننے سنانے کے اسباب موجود نہیں ہیں۔
مگر پھر بھی میرے حالات کو جانتا ہے اور عادی اسباب نہ ہونے کے باوجود میری مدد اور مشکل کشائی کی طاقت اور اختیار رکھتا ہے تو یہ پکارنا مافوق الاسباب پکارنا ہے اس ہستی کے اختیار کا عقیدہ جو اس کے ذہن میں ہے یہ بھی مافوق الاسباب اختیار کا عقیدہ ہے ۔
ایسے اختیارات اور طاقت کا مالک صرف اللہ ہے ایسی پکار اور ایسا عقیدہ صرف اللہ کے بارے میں ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ سننے جاننے اختیار اور تصرف کے لیے اسباب کا محتاج نہیں ہے۔
جبکہ مخلوق اسباب کی محتاج ہے غیر اللہ کے اندر وہی قوت اختیار ماننا پھر ان کو مافوق الاسباب پکارنا ایسا عقیدہ رکھنا شرک کہلائے گا یہی معنی مافوق الاسباب مدد مانگنے کا ہے یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ مخلوق کے سب اختیارات ما تحت الاسباب ہیں ہم بھی سنتے جانتے اختیار رکھتے ہیں کام کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں مگر یہ تمام کام اسباب کے اندر رہ کر کرتے ہیں اسباب کے دائرہ سے باہر ہمارا کچھ اختیار نہیں ہے قرآن کریم میں غیر اللہ کو مافوق الاسباب پکارنے اور مدد مانگنے کی نفی کی گئی ہے۔
من دون اللہ کا صحیح مطلب
قرآنی دلائل کو نقل کرنے سے پہلے ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں قرآن مجید میں یہ الفاظ کئی مقامات پر آئے ہیں من دون الله و من دونه جس کے معنی ہیں اللہ کے علاوہ (ماسوی اللہ) اللہ کے علاوہ جو چیز بھی ہے وہ غیر اللہ ہے اللہ نہیں۔ بعض لوگوں نے توحید کی آیات کی نفی کرنے کا ایک بہانہ بنالیا ہے کہ من دون الله سے مراد صرف بت ہیں یہ ایک بہت بڑا مغالطہ دیا جاتا ہے۔
میرے بھائیو! یاد رکھو کہ من دون الله سے مراد بت ہی نہیں بلکہ اللہ کے علاوہ ہر چیز من دون الله ہے قرآن مجید سے واضح کرتے ہیں کہ من دون الله سے مراد انبیاء کرام علیہم السلام بھی ہیں چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِي مِنْ دُونِ اللَّهِ (سورۃ آل عمران : 79)
کسی بشر کا کچھ حق نہیں کہ اللہ اسے کتاب اور حکم اور نبوت دے پھر وہ لوگوں سے کہے تم اللہ کے علاوہ میرے بندے بن جاؤ۔
یہاں من دون الله کا لفظ انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے بولا گیا ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ من دون الله سے مراد صرف بت ہیں ان کا کہنا محض مغالطہ دھوکہ اور فریب ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں ہے کہ علما ، اولیاء اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی من دون الله میں شامل کیا ہے چنانچہ ارشاد فرمایا :
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ (سورۃ التوبہ : 31)
انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے علماء ومشائخ کو رب بنا رکھا ہے اور مسیح ابن مریم علیہ السلام کو بھی۔
اس آیت مبارکہ میں من دون الله سے مراد علماء مشائخ اور عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔
من دون الله سے مراد بت ہی نہیں بلکہ اللہ کے بندے بھی ہیں۔
قرآنی آیات: غیر اللہ کی مافوق الاسباب نفی
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (سورۃ الأعراف : 194)
بیشک اللہ تعالیٰ کے علاوہ جنہیں تم پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں انہیں پکار کے دیکھو یہ تمہاری پکار کا جواب دیں اگر تم سچے ہو۔
من دون الله سے مراد عیسیٰ علیہ السلام اور مریم علیہا السلام، چنانچہ قرآن مجید میں ہے :
وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ (سورۃ المائدہ : 116)
اور جب اللہ فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تو نے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو دو معبود بنالو اللہ کے سوا۔ (ترجمہ: احمد رضا خان بریلوی)
ان آیات مبارکہ سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ من دون الله سے مراد انبیاء علیہم السلام اولیاء کرام رحمہم اللہ بلکہ اللہ کے علاوہ تمام مخلوقات ہیں جن کی مافوق الاسباب غائبانہ طور پر مدد کے لیے پکارنے کی ممانعت ہے اور ان کے اختیارات کی نفی قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے۔
وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (سورۃ الأنفال: 10)
اور مدد اللہ ہی کی طرف سے ہے بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔
ایک اور آیت کریمہ ہے :
أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (سورۃ البقرہ : 107)
کیا تم جانتے نہیں کہ آسمان اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے اور اللہ کے علاوہ تمہارا کوئی مددگار نہیں۔
ایک اور جگہ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
إِنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (سورۃ التوبہ : 116)
بے شک اللہ ہی کے لیے ہے آسمان اور زمین کی سلطنت جلاتا ہے اور مارتا ہے اور اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی والی اور نہ مددگار ہے۔ ( ترجمہ احمد رضا خان بریلوی صاحب)
ایک اور مقام پر ارشاد ہے :
وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (سورۃ الشورى : 31)
تم اللہ تعالیٰ کو کسی طرح عاجز نہیں کر سکتے اور تمہارا اللہ کے علاوہ کوئی مددگار نہیں۔
اسباب کے بغیر اللہ کے علاوہ کوئی مدد نہیں کر سکتا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا :
لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُمْ بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ (سورۃ الرعد : 14)
صرف اللہ ہی کو پکارنا سچ ہے جن کو یہ لوگ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کی پکار کسی طرح قبول نہیں کرتے مگر اس شخص کی طرح جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلا دے تا کہ پانی اس کے منہ تک آپہنچے حالانکہ وہ اس تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہے :
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ (سورۃ الأعراف : 194)
بیشک اللہ کے علاوہ جن کو تم پکارتے ہو وہ تم ہی جیسے بندے ہیں۔
اللہ کا ایک اور فرمان :
وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ (سورۃ فاطر : 13)
اور اللہ کے علاوہ جن کو تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں۔
وہ شاید قفس ہی میں عمریں گنوائیں
گئیں بھول صحرا کی جن کو فضائیں
ارشاد ربانی ہے :
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ (سورۃ النحل: 20)
اللہ کے علاوہ جن کو وہ پکارتے ہیں انہوں نے کوئی چیز نہیں پیدا کی بلکہ وہ تو خود پیدا کئے گئے ہیں۔
ایک اور مقام پر فرمایا :
أَمَّنْ هَٰذَا الَّذِي هُوَ جُنْدٌ لَكُمْ يَنْصُرُكُمْ مِنْ دُونِ الرَّحْمَٰنِ إِنِ الْكَافِرُونَ إِلَّا فِي غُرُورٍ (سورۃ الملک : 20)
بھلا کون ہے جو تمہاری فوج ہو کر اللہ کے سوا تمہاری مدد کر سکے۔ کافر تو دھوکے میں ہیں۔
دوسرے مقام پر فرمایا :
إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (سورۃ آل عمران : 160)
اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور وہ تمہیں چھوڑ دے تو پھر کون ہے کہ تمہاری مدد کرے اور مومنوں کو چاہئے کہ اللہ پر ہی بھروسہ رکھیں۔
انبیاء کا طریقہ: مافوق الاسباب مدد صرف اللہ سے
قارئین محترم غور فرمائیں کہ مافوق الاسباب مدد انبیاء کرام علیہم السلام نے کس سے مانگی چنانچہ سیدنا نوح علیہ السلام نے مشکل میں مدد صرف اللہ سے مانگی۔
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوا عَبْدَنَا وَقَالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ (سورۃ القمر : 9-10)
ان سے پہلے نوح کی قوم نے ہمارے بندے نوح کو جھٹلایا تھا اور دیوانہ کہہ کر جھڑک دیا تھا پس انہوں نے اللہ سے دعا مانگی کہ میں بے بس ہوں تو میری مدد فرما۔
اس طرح جناب ہود علیہ السلام نے بھی اللہ سے مدد مانگی :
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ (سورۃ المؤمنون : 39)
اے اللہ ان کے جھٹلانے پر تو میری مدد فرما۔
میدان بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے مدد مانگی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مدد فرمائی :
وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (سورۃ آل عمران : 123)
جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے عین اس وقت تمہاری مدد فرمائی جب تم کمزور تھے اللہ سے ڈرو اور اس کا شکر ادا کر۔
بت پرستی کی حقیقت اور غلط فہمیاں
توحید کی آیات کو رد کرنے کا لوگوں نے ایک بہانہ بنا رکھا ہے کہ یہاں پر بتوں کو پکارنے سے منع کیا گیا ہے حالانکہ بتوں کی حقیقت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بت پرستی بھی اولیاء اللہ کی محبت میں کی گئی وگرنہ بتوں کی پوجا کرنے والے ہر پتھر اور ہر درخت کو نہیں پوجتے تھے بلکہ خاص پتھر و درخت تھے جو نیک لوگوں کے ناموں سے منسوب تھے ان کی پوجا نیک لوگوں کی محبت میں کرتے تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی صراحت موجود ہے کہ قوم نوح علیہ السلام کے وہ پانچ بت جن کا ذکر قرآن مجید سورہ نوح میں کیا گیا ہے۔ دراصل قوم نوح علیہ السلام کے نیک آدمیوں کے نام تھے جب وہ مر گئے تو شیطان نے ان کے عقیدت مندوں کو کہا کہ ان کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ان کے مجسمے بنا کر اپنی بیٹھکوں میں رکھ لو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا لیکن جب مجسمے بنانے والے فوت ہو گئے تو ان کے بعد کی نسل نے ان کی تصویروں اور مجسموں کی عبادت شروع کر دی۔ (صحیح بخاری تفسیر سوره نوح ج 2 ص 83)
قرآن کا حکم: مدد صرف اللہ سے
حالانکہ ہر کوئی نماز میں اللہ سے وعدہ کرتا ہے۔
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (سورۃ الفاتحہ : 5)
ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔
مگر نماز کے بعد ان کے ہزاروں مددگار ہوتے ہیں جن کو مدد کے لیے پکارتے ہیں یعنی وعدہ کر کے مکر جاتے ہیں اور کئی مشکل کشا بناتے ہیں قرآن وسنت پر توجہ ہی نہیں دیتے ورنہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح فرمایا :
وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (سورۃ الأنعام : 17)
اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں اور اگر تجھے کوئی اللہ تعالیٰ کوئی نفع پہنچائے تو وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔
قرآن کی فریاد :
وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ (سورۃ یونس : 106)
اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کو مت پکارو جو تجھ کو نہ کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ نقصان پہنچا سکے پھر اگر ایسا کیا تو تم ایسی حالت میں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔
ما فوق الاسباب مدد صرف اللہ ہی سے مانگنی چاہیے یہی تعلیم انبیاء علیہم السلام نے دی چنانچہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا :
قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا (سورۃ الأعراف : 128)
موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرو اور صبر کرو۔
کیوں کہ اسباب کے بغیر مدد کرنا اللہ کا حق ہے :
وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ (سورۃ الروم : 47)
اور مومنوں کی مدد ہم پر لازم تھی۔
اطاعت گزار کو جو جزا ملتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام سے ہے یہاں بدلہ عوض کا معاملہ نہیں ہوتا جیسے مخلوق کے مابین عام طور پر ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی مخلوق کو جو فضل و انعام کا حق پہنچتا ہے یہ خصوصی حق ہے غیر کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ غیر اللہ کو مدد کے لیے پکارنا بے سود ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے کہ :
يَاأَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ (سورۃ الحج : 73)
لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو کہ جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگر چہ اس کے لیے سب متحد ہو جائیں اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز چھین لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے طالب اور مطلوب دونوں کمزور ہیں۔
ہر مشکل میں مافوق الاسباب مدد صرف اللہ سے ہی مانگنی چاہیے جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائی :
إذا سألت فاسأل الله وإذا استعنت فاستعن بالله (ترمذی شریف : 2512 وصححه الالباني رحمہ اللہ)
تم جب بھی سوال کرنا چاہو تو صرف اللہ تعالیٰ سے کیا کرو اور جب بھی مدد طلب کرنا چاہو تو صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کیا کرو۔
نیز رب ذوالجلال نے ارشاد فرمایا :
قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (سورۃ الرعد : 16)
آپ پوچھئے کہ زمین و آسمان کا رب کون ہے؟ آپ خود ہی بتا دیجئے کہ اللہ ہے آپ کہیے کہ کیا تم لوگوں نے اس کے سوا دوسروں کو یارو مددگار بنالیا ہے جو خود اپنی ذات کے لیے بھی نفع ونقصان کے مالک نہیں آپ کہیے کہ کیا نابینا اور بینا دونوں برابر ہیں؟ یا کیا تاریکیاں اور روشنی برابر ہے یا کیا انہوں نے اللہ کے کچھ ایسے شریک بنالیے ہیں جنہوں نے اللہ کی مخلوق کی طرح کسی کو پیدا کیا ہے اور وہ مخلوقات ان کی نظر میں گڈمڈ ہو گئے ہیں؟ آپ اعلان کر دیجئے کہ اکیلا اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے وہ تنہا زبردست ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
أَيُشْرِكُونَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ (سورۃ الأعراف : 191)
کیا وہ ایسوں کو شریک بناتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے اور خود پیدا کئے جاتے ہیں۔
نیز فرمایا :
وَلَا يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ نَصْرًا وَلَا أَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ (سورۃ الأعراف : 192)
اور نہ ان کی مدد کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنی مدد کر سکتے ہیں۔
مزید فرمایا :
وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَا أَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ (سورۃ الأعراف: 197)
اور جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ نہ تمہاری ہی مدد کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ خود اپنی ہی مدد کر سکتے ہیں۔
پھر فرمایا :
أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ (سورۃ الزمر : 38)
کہ بھلا یہ بتاؤ کہ اللہ کے سوا تم جنہیں پکارتے ہو اگر اللہ مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو کیا یہ اس کی دی ہوئی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں یا اللہ مجھ پر عنایت کرنا چاہے تو یہ اس کی عنایت کو روک سکتے ہیں۔
ہے مریدوں کو تو حق بات گوارا لیکن
شیخ و ملا کو بری لگتی ہے درویش کی بات
غلط مثالوں کا رد اور اسباب کی وضاحت
غیر اللہ کے متعلق غلط فہمی کا ازالہ بعض لوگ ما تحت الاسباب اور مافوق الاسباب کا فرق کو ملحوظ رکھے بغیر سادہ لوگوں کو گمراہ کرنے اور انہیں قرآنی حقائق اور حدیثی معارف سے دور رکھنے کے لیے انتہائی سطحی قسم کی گفتگو کرنا شروع کر دیتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس قرآن وحدیث کی دلیل تو ہوتی نہیں دل و دماغ میں کینہ بعض ونفرت کا ایک طوفان بپا ہوتا ہے۔
ان کے نزدیک قرآن وسنت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ جاہل قسم کے مولوی حضرات سے سنے سنائے قصے کہانیاں ہی ان کی دلیل ہوتی ہیں مخالف کی بات سننا بھی گوارا نہیں کرتے جب قرآن وحدیث بطور دلیل پیش کی جاتی ہے تو اس پر غور کرنے کی بجائے اعتراض کرتے اور کہتے ہیں کہ اگر غیر اللہ سے مدد مانگنا جائز نہیں تو پھر آپ اپنی بیویوں سے کھانا کیوں طلب کرتے ہیں؟ اپنے ہمسایوں سے ضرورت کی اشیاء کیوں مانگتے ہیں؟ مساجد اور مدارس کے لیے لوگوں سے چندہ کیوں مانگتے ہیں؟ ڈاکٹر سے دوائی کیوں لیتے ہیں؟
پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ بیوی سے کھانا مانگنا ما تحت الاسباب ہے بیوی کے پاس کھانا موجود ہوگا تو دے گی اگر کسی کی بیوی فوت ہو جائے تو وہ قبرستان میں جا کر بیوی سے کھانا مانگے تو اس کو کھانا مل جائے گا؟ اسی طرح کوئی زندہ آدمی اگر ہمارے پاس موجود ہو اور ہم اس سے کسی معاملہ میں مدد طلب کریں تو اگر اس کے اختیار میں وہ کام ہوا تو مدد کرے گا ورنہ نہیں۔
مساجد اور مدارس کے لیے چندہ ان لوگوں سے مانگا جاتا ہے جو زندہ موجود ہیں اور وہی دیں گے جن کے پاس پیسے موجود ہیں اور اگر کوئی بزرگوں کے قبرستان میں جا کر چندہ مانگے تو کیا قبروں میں مدفون بزرگ چندہ دے سکتے ہیں؟ یقین نہیں آتا تو تجربہ کر کے دیکھ لیں شاید آپ کو ہماری بات پر یقین آجائے…..!
ڈاکٹر سے دوائی کا جہاں تک تعلق ہے ڈاکٹر سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ مجھے شفا دے میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے اگر آپ کے پیٹ میں درد ہو تو ایک آدمی آپ کو فورا مشورہ دے گا کہ فلاں ڈاکٹر کے پاس چلے جاؤ اس لیے کہ ڈاکٹر تجھے دوائی دے گا اور دوائی سے شاید آپ ٹھیک ہو جائیں یہ ڈاکٹر کا دوائی دینا سبب ہے۔ اگر ڈاکٹر سے کہے کہ دوائی کے بغیر مجھے شفا دے تو بغیر دوائی کے سبب ڈاکٹر کچھ بھی نہیں کر سکتا کیونکہ دوائی ایک سبب ہے ۔ سبب کے ذریعے مدد مانگنا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے دوائی استعمال کرنا بھی انبیاء کی سنت ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت ہے مگر سبب کے بغیر مدد صرف اللہ سے ہی تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے طلب کی ہے مخلوق اسباب کی محتاج ہے مگر اللہ کسی سبب کا محتاج نہیں ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا دینے کا اختیار ہے۔ ڈاکٹر خود دوائی کا محتاج ہے جب ڈاکٹر دوائی کا محتاج ہے تو شفا دے سکتا ہے ڈاکٹر تو دوائی کے ذریعے کوشش کرے گا دوائی میں شفا کی تاثیر پیدا کرنا اللہ کا کام ہے۔
اس قسم کی دوسری باتیں کرنا مشرکانہ ذہنیت کی فریب کارانہ چالیں ہیں جن سے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے اور انہیں توحید وسنت کے چشمہ صافی سے دور رکھنے اور اپنے جال میں پھنسائے رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ورنہ کون نہیں جانتا کہ قرآن وسنت کی رو سے دنیوی معاملات میں اس قسم کی مدد لینا اور مدد دینا صرف جائز نہیں بلکہ کار ثواب ہے۔ بشرطیکہ جس سے مدد مانگی جارہی وہ اس پر قادر ہو اور اس سے جو کچھ مانگا جارہا ہے وہ چیز اس کے قبضہ اختیار میں ہو۔ اور جن امور کی طاقت وقدرت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس نہیں ان معاملات میں غیر اللہ سے مدد مانگنا مصائب و مشکلات میں انہیں دور ونزدیک سے اعانت کے لیے پکارنا انہیں نفع و نقصان کا مالک سمجھنا حاجت روا مشکل کشا جاننا یہ سب اختیارات ما فوق الاسباب اللہ تعالیٰ کے ہیں کسی دوسرے کو سمجھنا گردانا شرک ہے۔
بعض مولویوں کی طرف سے پھیلائی جانے والی گمراہی کی حقیقت عام فہم سادہ مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں پروفیسر علامہ عبدالستار حامد حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں۔
اولاد، شفا اور زندگی: صرف اللہ کے اختیارات
مثلاً ایک عورت کی شادی کو کافی عرصہ گزر چکا ہے مگر اس کی گود اولاد سے خالی ہے وہ دونوں میاں بیوی اکثر اس محرومی پر افسردہ اور پریشان رہتے ہیں کیونکہ اولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور رحمت ہے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ رب العزت بے اولادوں کو نیک اولاد نصیب فرمائے اور ہم سب کی اولادوں کو نیک نمازی اور فرمانبردار بننے کی سعادت نصیب فرمائے آمین ایک دن بے اولاد عورت کے گھر نمک ختم ہو جاتا ہے اب اسے نمک کی ضرورت ہے وہ اپنی ہمسائی سے نمک مانگ لیتی ہے اس کی پڑوسن اسے نمک دے دیتی ہے۔ پھر کسی دن وہی عورت اپنی ہمسائی سے مرچیں مانگ لیتی ہے پھر ایک دن ماچس کا مطالبہ کرتی ہے۔ ایک دن ہانڈی میں ڈالنے کے لیے تھوڑا گھی بھی طلب کر لیتی ہے اب کوئی شخص یوں کہے کہ جب تم نے نمک مرچ ماچس گھی اور مصالحہ غیر اللہ سے مانگ لیا ہے تو اب اس ہمسائی سے ایک لڑکی یا لڑکا بھی مانگ لے تو اسے عقل کا اندھا علم سے پیدل اور احمقوں کا سردار ہی کہا جائے گا۔ آپ غور فرمائیں کہ جو چیز اس نے ہمسائی سے مانگی وہ تو اس کے پاس موجود تھیں۔ تو کیا اولاد شفا زندگی اور موت کا اختیار اللہ کے علاوہ کسی کے پاس موجود ہے۔ (تفسیر سورہ فاتحہ صفحہ ؒ 388)
ہرگز نہیں تو ایسا کرنے والے کی گمراہی میں کیا شک ہو سکتا ہے۔
غیر اللہ کو پکارنے کی گمراہی
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ (سورۃ الأحقاف : 5)
اور اس شخص سے بڑا گمراہ اور کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے سوا ایسے لوگوں کو پکارتا ہے جو اس کی پکار قیامت تک نہیں سن سکتے اور وہ ان کی دعا و پکار سے غافل اور بے خبر ہیں۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو صحیح مسئلہ سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمين
اور اس شخص سے بڑا گمراہ اور کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے سوا ایسے لوگوں کو پکارتا ہے جو اس کی پکار قیامت تک نہیں سن سکتے اور وہ ان کی دعا و پکار سے غافل اور بے خبر ہیں۔
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
دوستو کچھ بھی فرمان محمدﷺ کا تمہیں پاس نہیں
◈ قادری صاحب کا فریب: آیتِ استعانت کی حقیقت
حفیظ الرحمن قادری کا ایک فریب لکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (سورۃ البقرہ : 153)
اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (شرک کیا ہے صفحہ : 82)
یہاں پر استعانت کا لفظ صبر اور نماز کے ساتھ استعمال ہوا ہے حالانکہ نہ صبر خدا ہے نہ نماز خدا ہے بلکہ یہ وہ صفات ہیں جو وجود میں بندے کی محتاج ہیں۔
الجواب :
قادری صاحب بھی قرآنی آیت سے اپنی مرضی کا نتیجہ اخذ کرتے ہیں حالانکہ آج تک کسی محدث قرون اولیٰ کے کسی مفسر نے یہ خود ساختہ نتیجہ اخذ نہیں کیا مگر بریلوی حضرت کو اپنا بناوٹی مذہب ثابت کرنے کے لیے قرآن کے مفہوم کو بگاڑنا کیوں نہ پڑے یہ سب کام کر گزرتے ہیں حالانکہ اس آیت مبارکہ میں غیر اللہ سے مدد مانگنے کا تصور بالکل بھی نہیں پایا جاتا بلکہ اللہ سے مدد مانگنے کی ترغیب دلائی گئی ہے چنانچہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے مدد چاہو اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔ انسان کی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں آرام و راحت یا تکلیف و پریشانی نعمت میں شکر الہی کی تلقین اور تکلیف میں صبر اور اللہ سے استعانت کی تاکید ہے حدیث مبارکہ میں ہے کہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اسے خوشی پہنچتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے دونوں ہی حالتیں اس کے لیے خیر ہیں۔ (صحیح مسلم کتاب الزهد والرقاق حدیث : 2999)
لہذا اس آیت مبارکہ میں نماز اور صبر کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قادری صاحب نماز اور صبر کو مددگار سمجھ رہے ہیں پھر اس کے کیا معنی ہوں گے کہ اگر کوئی آدمی آپ کے سامنے شور کر رہا ہو آپ اس کی طرف مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ آرام سے بات کرو تو معنی یہ ہوگا کہ آرام کوئی شخص ہے تم اس سے بات چیت کرو قادری صاحب کے فلسفے کا تو یہاں بھی معنی یہی ہوگا یا پھر کوئی آدمی کسی کام میں جلدی کر رہا ہو تو آپ اسے کہتے ہیں یار صبر سے کام لے تو کیا اس کا معنی یہ ہوگا کہ صبر کوئی شخصیت ہے جس سے تم اپنا کام لے لو تو ایسا استدلال کرنے والے کی جہالت میں کیا شک ہوسکتا ہے اللہ سے دعا کریں کہ ہمیں صحیح بات سمجھنے کی توفیق دے۔ آمين يا رب العالمين
بقول شاعر :
طوفان میں جب جہاز ہے چکر کھاتا
جب قافلہ وادی میں ہے سر ٹکراتا
اسباب کا آسرا ہے جو اٹھ جاتا
واں تیرے سوا کوئی نہیں یاد آتا