سوال:
سوال یہ ہے کہ فرض کیا زید نے بکر کی بیٹی لے کر پالی ہے، یعنی اسے اپنی لے پالک بیٹی بنایا ہے تو اس کے متعلق مندرجہ ذیل سوالات ہیں:
① لے پالک بچی کی ولدیت میں بکر جو حقیقی باپ ہے، اسے لکھا جائے گا یا زید کو؟
② شادی کے موقع پر ولی کون بنے گا؟
③ حقیقی اولیاء شادی کے موقع پر نہیں مل رہے تو عدم موجودگی میں ولی کون ہو گا؟
جواب:
زمانہ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ لے پالک اولاد کو حقیقی اولاد سمجھا جاتا تھا اور انہیں حقیقی بیٹوں جیسے حقوق دیے جاتے تھے اور شروع اسلام میں بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری تھا اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو لوگ زید بن (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کہ کر پکارتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ رسم توڑنے کے لیے سورۃ الاحزاب میں آیات نازل کیں اور فرمایا:
﴿وَادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾ (الأحزاب: 5)
”ان لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے پکارو، اللہ کے نزدیک یہی انصاف ہے، اگر تمہیں ان کے باپوں کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور دوست ہیں اور جو تم سے خطا و بھول میں ہو جائے اس میں تم پر گناہ نہیں، لیکن جس کا تم دل سے ارادہ کرو (اس پر گناہ ہے) اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، بے حد مہربان ہے۔“
اس آیت کے نزول کے بعد زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو زید بن (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں کہا جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی مطلقہ بیوی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح کر کے بتا دیا کہ لے پالک کے حقوق اور احکام حقیقی بیٹوں کی طرح نہیں ہیں، کیونکہ حقیقی بیٹے کی مطلقہ سے باپ نکاح نہیں کر سکتا اور یہ بھی بتا دیا کہ لے پالک کو اس کے باپ ہی کے نام پر پکارنا اور بلانا چاہیے، جو اسے باپ کے نام پر نہیں پکارتا وہ بے انصافی کا مرتکب ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کہا تھا:
أنت أخونا ومولانا
(بخاری، کتاب المغازی، باب عمرة القضاء (4251)، مسند احمد (1/115، ح: 931))
”تو ہمارا بھائی اور دوست ہے۔“
اور جو آدمی اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب ہو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت پڑتی ہے، جیسا کہ صحیح مسلم (1370) وغیرہ میں موجود ہے۔ لہذا بچی کی ولدیت اس کے حقیقی باپ ہی کے نام پر لکھی اور کہی جائے اور شادی کے موقع پر ولی اس کا حقیقی باپ ہی ہو گا۔ اگر وہ نہ ہو تو دوسرے حقیقی اولیاء ہوں گے اور جس بچی کا کوئی بھی ولی نہ ہو حکمران اس کا ولی ہوتا ہے، جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث ہے:
”جو بھی عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اگر مرد اس کے ساتھ دخول کرے تو اسے مہر دے گا، اس وجہ سے جو اس نے اس کی شرمگاہ کو حلال سمجھا اور اگر اولیاء جھگڑا کریں تو جس کا ولی نہ ہو سلطان و حاکم اس کا ولی ہے۔“
(ابن ماجه (4074)، ابو داؤد، کتاب النکاح، باب فی الولی (2083)، ترمذی (1102))
لہذا ولی کی عدم موجودگی میں، یا اگر اولیاء جھگڑیں اور کوئی بھی ولی نکاح نہ کرنا چاہے تو حکمران کے ذریعے نکاح ہوگا۔ (واللہ اعلم)