لڑکی کے والد کی اجازت کے بغیر نکاح اور شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 447

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک لڑکی بنام عبدالرحیم کے ساتھ فرار ہوگئی۔ اس معاملے میں لڑکی کی والدہ بھی راضی تھی اور اسی نے اپنی رضا مندی سے لڑکی کو عبدالرحیم کے ساتھ بھیجا۔ عبدالرحیم نے اس لڑکی سے نکاح کیا اور پھر عدالت میں جاکر اس کا بیان بھی دلوایا۔ اب جب لڑکی دوبارہ ملی ہے تو وہ حاملہ ہے۔ شرعِ محمدی کے مطابق اس لڑکی پر کیا سزا عائد ہوگی؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ مسئلے میں یہ بات جان لینی چاہئے کہ اس نکاح کا جواز ثابت نہیں ہوتا اگرچہ لڑکی کی والدہ بھی اس میں شریک اور راضی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ولایت کا حق والد کو حاصل ہے، اور یہاں پر والد موجود ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:

((لانكاح إلابولى.))

اور دوسری حدیث میں فرمایا گیا:

((أيماإمرأة نكحت بغيرإذن وليها فنكاحها باطل فنكاحها باطل فنكاحها باطل.))
مسند احمد، وابن ماجه: كتاب النكاح، باب لانكاح إلابولى

لہٰذا عبدالرحیم کا یہ نکاح شرعاً باطل ہے۔ اس صورت میں عبدالرحیم نے زنا کیا ہے اور اس پر زنا کی حد عائد ہوگی۔ اسی طرح اس کے مطابق زنا کی سزا دی جائے گی۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے