لوگوں کے مال میں دراندازی کر کے ان سے ناحق لیا جانے والا مال
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

حرام کھانا جہنم میں داخل ہونے کا سبب

حرام کھانا جہنم میں داخل ہونے کا سبب ہے۔ وہ مال حرام ہوتا ہے جو لوگوں کے مال میں دراندازی کر کے ان سے ناحق لیا جائے۔ رشوت کا مال تجارت میں دھوکے سے کمایا جانے والا مال، حرام اشیا کی تجارت سے حاصل ہونے والا مال جیسے شراب، خنزیر، سیگریٹ فروشی اور رشوت خوری کی آمدنی، چوری، ڈاکہ زنی اور دیگر حرام ذرائع سے کمایا جانے والا مال حرام مال کے زمرے میں آتا ہے۔
قرآن و حدیث کی بہت ساری نصوص اس سے خبر دار کرتی ہیں۔
«وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ» [البقرة: 188]
”اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ اور نہ انہیں حاکموں کی طرف لے جاؤ، تاکہ لوگوں کے مالوں میں سے ایک حصہ گناہ کے ساتھ کھا جاؤ، حالانکہ تم جانتے ہو۔“
«إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا» [النساء: 10]
”بے شک جو لوگ یتیموں کے اموال ظلم سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ کے سوا کچھ نہیں کھاتے اور عنقریب وہ بھڑکتی آگ میں داخل ہو گے۔“
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”وہ گو شت جو حرام سے پرورش پائے اور بڑھے وہ آگ کا زیادہ مستحق ہے۔“ [سنن الترمذي، رقم الحديث 614]
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
لہٰذا جو کسی حرام کام میں داخل ہو جائے اس کو توبہ کرنی چاہیے اور اگر مال چوری کیا تھا یا لوٹا تھا یا سود لیا تھا تو اس کے مالک کو واپس کرے۔ اگر مال یا اس کے ورثا کو نہیں جانتا تو ان کی طرف سے نیت کر کے صدقہ کر دے۔
[اللجنة الدائمة: 20444]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل