"لولاک ما خلقت الأفلاک” کی حقیقت: تحقیقی جائزہ اور فتویٰ
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) – جلد: 2، صفحہ: 49

کیا "لولاک ما خلقت الأفلاک” والی بات درست ہے؟ مکمل وضاحت

سوال:

کیا یہ بات درست ہے کہ اگر نبی کریم ﷺ کو پیدا نہ کیا جاتا تو اللہ تعالیٰ کائنات کو پیدا نہ کرتا؟ اس کی وضاحت درکار ہے۔

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعض لوگ یہ جملہ بیان کرتے ہیں کہ:

"لولاک لما خلقت الأفلاک”
یعنی: اے نبی! اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمانوں (اور زمین) کو پیدا نہ کرتا۔

✅ اس جملے کی کوئی مستند حیثیت نہیں:

◈ یہ جملہ کسی بھی حدیث کی معتبر کتاب میں سند کے ساتھ موجود نہیں ہے۔
◈ شیخ حسن بن محمد الصغانی (متوفی 650ھ) نے اس جملے کو "موضوع” یعنی من گھڑت قرار دیا ہے۔

➤ مراجع:

موضوعات الصغانی (صفحہ 78)
تذکرۃ الموضوعات از محمد طاہر الفتنی الہندی (صفحہ 86)
الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ از الشوکانی (صفحہ 326)
الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ از ملا علی قاری الحنفی (صفحہ 385)
کشف الخفاء از العجلونی (حدیث نمبر 2123)
الآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ از عبدالحئی اللکنوی (صفحہ 40)

🔔 وضاحت:

بعض علماء کی رائے:

عجلونی اور ملا علی قاری نے اس جملے کے موضوع ہونے کو تسلیم کرنے کے بعد یہ لکھا کہ اس کا "معنی صحیح” ہے۔

تنقید:

◈ جب ایک روایت باطل، من گھڑت اور اللہ و رسول پر افتراء ہو، تو اس کے معنی کو صحیح قرار دینا دلیل کے بغیر درست نہیں۔

دیلمی کی روایت:

"أتاني جبريل فقال: يا محمد! لولاک ما خلقت الجنة و لولاک ما خلقت النار”
یعنی: جبریل میرے پاس آئے اور کہا: اے محمد ﷺ! اگر آپ نہ ہوتے تو میں جنت نہ بناتا اور اگر آپ نہ ہوتے تو میں جہنم کی آگ نہ بناتا۔
(الاسرار المرفوعۃ ص 288)

دیگر حوالہ جات:

کنز العمال (11/431، حدیث 32025)
کشف الخفاء (1/45، حدیث 91)
فردوس الاخبار از دیلمی (5/338، حدیث 8095)

🔴 یہ روایت بھی بے سند اور بے حوالہ ہونے کی وجہ سے موضوع اور ناقابلِ قبول ہے۔

احمد بن محمد بن ہارون الخلال کی روایت:

"یا محمد! لولاک ما خلقت آدم”
یعنی: اے محمد ﷺ! اگر آپ نہ ہوتے تو میں آدم علیہ السلام کو پیدا نہ کرتا۔
(السنۃ ص 237، حدیث 273)

🟥 یہ روایت بھی بلا سند ہے، اس لیے موضوع اور مردود قرار دی گئی ہے۔

ابن عساکر کی روایت:

"لولاک ما خلقت الدنیا”
یعنی: اگر آپ نہ ہوتے تو دنیا پیدا نہ کرتا۔
(الاسرار المرفوعۃ ص 288)

مزید مراجع:

تاریخ دمشق (3/296، 297)
الموضوعات از ابن الجوزی (1/288، 289)
اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ از سیوطی (1/272)

تنقید ابن جوزی:

"ھذا حدیث موضوع لا شک فیه”
◈ راویان (ابوالسکین، ابراہیم بن الیسع، یحییٰ بصری) سب مجروح اور ضعیف ہیں۔
احمد بن حنبل اور فلاس کے مطابق، یحییٰ بصری کذاب ہے اور موضوع احادیث روایت کرتا تھا۔

رائے سیوطی:

"موضوع”
◈ راوی خلیل بن مرہ بھی ضعیف ہے۔
(تقریب التہذیب، راوی نمبر 1757)

روایت المستدرک للحاکم:

"ولا لا محمد ما خلقتک”
(اے آدم!) اگر محمد ﷺ نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا۔
(المستدرک للحاکم 2/615، حدیث 4228)

نقد:

حافظ ذہبی:
"بل موضوع و عبدالرحمن واہ”
(تلخیص المستدرک 2/672)

حاکم خود لکھتے ہیں:
"روی عن أبیه أحادیث موضوعة”
(المدخل الی الصحیح ص 154، رقم: 97)

➌ راوی عبداللہ بن مسلم الفہری یا تو نامعلوم ہے یا وہ مشہور کذاب عبداللہ بن مسلم بن رشید ہے۔
(لسان المیزان 3/359-360، جدید طباعت 4/161-162)

🔴 نتیجہ: یہ روایت موضوع ہے اور حاکم کا "صحیح الإسناد” کہنا ایک غلطی ہے۔

ایک اور روایت مستدرک میں:

"فلولا محمد ما خلقت آدم ولو لا محمد ما خلقت الجنة و لا النار”
یعنی: اگر محمد ﷺ نہ ہوتے تو میں آدم کو پیدا نہ کرتا، اور اگر محمد ﷺ نہ ہوتے تو میں جنت اور دوزخ کو پیدا نہ کرتا۔
(المستدرک للحاکم 2/615، حدیث 4227)

وجوہاتِ ضعف:

حافظ ذہبی:
"أظنہ موضوعا علی سعید”
(تلخیص المستدرک 2/671)

➋ راوی عمرو بن اوس مجہول ہے۔
(میزان الاعتدال 3/246، لسان المیزان 4/354)

سعید بن ابی عروبہ مختلط ہیں۔
سعید بن ابی عروبہ اور قتادہ دونوں مدلس ہیں، اس لیے اگر روایت ثابت ہو بھی جائے تب بھی مردود ہوگی۔
طبقات ابی الشیخ الاصبہانی میں یہ روایت محمد بن عمر المحاربی کی سند سے آئی ہے جو مجہول ہے اور اس نے عمرو بن اوس کو سعید بن اوس میں بدل دیا ہے۔

🔎 خلاصہ تحقیق:

"لولاک ما خلقت الأفلاک” اور اسی مفہوم کی تمام روایات موضوع اور باطل ہیں۔
◈ یہ روایات قابلِ اعتبار نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ و رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہیں۔

🔹 قرآن کریم کی واضح تعلیم:

﴿وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون﴾
"اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔”
(الذاریات: 56)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1