جو شخص کوئی گمشدہ چیز پائے اسے اس کے ظرف اور تسمے کی تشہیر کرنی چاہیے اور اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے اس کے حوالے کر دے
لقطه سے مراد ایسی گمشدہ چیز ہے جو راستے میں گری پڑی ملے یا اس کا مالک لاپتہ ہو ۔ باب الْتَقَطَ يَلْتَقِطُ (افتعال) اور باب لَقَط يَلْقُطُ (نصر) ”زمین سے اٹھانا ۔“ اللقط اور لقيط ”وہ چیز جسے اُٹھایا جائے ۔“
[المنجد: ص / 799 ، لسان العرب: 311/12]
یہ لفظ قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ ایک آیت میں ہے کہ :
فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ [القصص: 8]
”اسے آل فرعون نے اٹھا لیا ۔“
اس کی مشروعیت کے لیے درج ذیل دلائل کافی ہیں:
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ [المائدة: 2]
”نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو ۔“
➋ حدیث نبوی ہے کہ :
والله فى عون العبد ما كان العبد فى عون أخيه
”اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں رہتے ہیں جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے ۔“
[مسلم: 2699 ، كتاب الذكر والدعاء: باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر ، تحفة الأشراف: 375/9]
وہ برتن جس میں لقطہ ملے خواہ وہ برتن چمڑے کا ہو یا کپڑے کا ۔
وہ دھاگہ یا تسمہ جس سے تھیلے وغیرہ کا منہ باندھا جاتا ہے ۔
[نيل الأوطار: 47/4 ، فتح الباري: 365/5]
➊ حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من وجد لقطة فليشهد ذوى عدل أو ليحفظ عفاصها وو كاء ها فإن جآء صاحبها فلا يكتم فهو أحق بها وإن لم يحىٔ صاحبها فهو مال الله يؤتيه من يشاء
”جو شخص کوئی گمشدہ چیز پائے تو دو گواہ بنا لے یا اس کے ظرف و تسمے کی حفاظت کرے ۔
اگر اس کا مالک آ جائے تو اس سے کچھ نہ چھپائے کیونکہ وہی اس کا زیادہ حقدار ہے ۔ اور اگر وہ نہ آئے تو یہ اللہ کا مال ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 1503 ، كتاب اللقطة: باب التعريف باللقطة ، ابو داود: 1709 ، احمد: 266/4 ، ابن ماجة: 2505 ، موارد الظمآن: 1169 ، مسند طيالسي: 1081 ، طبراني كبير: 358/17 ، مشكل الآثار: 207/4 ، شرح معاني الآثار: 136/4 ، بيهقى: 187/6 ، ابن الجارود: 671]
➋ حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ گمشدہ سونا اور چاندی اٹھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے تسمے اور ظرف کی ایک سال تشہیر کرو اگر مالک نہ ملے تو اسے استعمال کر لو لیکن یہ تمہارے پاس امانت ہو گی اگر اس کا مالک (تمہاری زندگی میں ) کبھی بھی آ جائے تو اسے ادا کرنا ہو گی ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ اونٹ کے متعلق سوال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دے کیونکہ اس کے پاس اس کی جوتی (کھر) اور مشکیزہ (یعنی پانی محفوظ کرنے کی جگہ) ہے وہ پانی کے گھاٹ پر جائے گا ، درختوں سے کھائے گا حتٰی کہ اس کا مالک اسے مل جائے گا ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بکری کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے پکڑ لے یہ تو صرف تیرے لیے ہے یا تیرے (کسی اور ) بھائی کے لیے ہے یا پھر بھیڑیے کے لیے ہے ۔“
[بخاري: 2429 ، كتاب اللقطة: باب إذا لم يوجد صاحب اللقطة بعد سنة فهي لمن وجدها ، مسلم: 1346 ، ابو داود: 1704 ، ترمذي: 1372 ، ابن ماجة: 2504 ، مسند شافعي: 137/2 ، احمد: 115/4 ، شرح معاني الآثار: 134/4 ، دارقطني: 235/4 ، بيهقي: 185 ، عبد الرزاق: 130/10 ، حميدي: 357/2 ، شرح السنة: 438/4]
➌ حضرت أبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لقطہ کے متعلق فرمایا:
عرفها فإن جآء أحد يخبرك بعدتها ووعائها وو كائها فأعطها إياه وإلا فاستمتع بها
”اس کی تشہیر کرو ، اگر کوئی آ کر اس کی مدت ، اس کا ظرف اور اس کے تسمے کے متعلق خبر دے تو اسے دے دو ورنہ اس سے فائدہ حاصل کرو ۔“
[بخاري: 2437 ، كتاب اللقطة: باب هل ياخذ اللقطة ولا يدعها ، مسلم: 1723 ، ابو داود: 1701 ، ترمذي: 1374 ، ابن ماجة: 2506 ، احمد: 126/5 ، منحة المعبود: 279/1 ، بيهقي: 186/6]
ثابت ہوا کہ گمشدہ چیز اٹھانے والے کو چاہیے کہ وہ مذکورہ علامات بیان کرنے والے کو وہ چیز ادا کر دے اگرچہ ثبوت مہیا نہ ہو ۔
[نيل الأوطار: 50/4]
ورنہ سال بھر اس کی تشہیر کرتا رہے اور اس کے بعد اسے استعمال کرنا اس کے لیے جائز ہو گا اگرچہ وہ اسے اپنے نفس پر خرچ کرے لیکن مالک کے آنے پر وہ اس کا ضامن ہو گا
گذشتہ احادیث اس مسئلہ میں بھی دلیل ہیں مثلاً جس حدیث میں یہ لفظ ہیں:
فإن جاء طالبهـا يـومـا من الدهر فأدها إليه
”اگر اس چیز کا طلبگار عمر کے کسی حصے میں بھی آ جائے تو وہ چیز اسے ادا کرنا ہو گی ۔“
[بخاري: 2428]
(جمہور) سال کے بعد تشہیر کرنا واجب نہیں ہے ۔
[نيل الأوطار: 50/4 ، الروضة الندية: 527/2]
لیکن مندرجہ ذیل حدیث جمہور کے موقف کے خلاف معلوم ہوتی ہے:
حضرت أبی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے سو دینار کی ایک تھیلی ملی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عرفها حولا
”ایک سال اس کی تشہیر کرو ۔“
چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا لیکن جب اسے جاننے والا نہ ملا تو میں دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پھر ایک سال کی تشہیر کا حکم دیا ۔ میں نے کسی کو نہ پایا تو میں تیسری مرتبہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
احفظ وعاء ها وعددها ووكـائهـا فـإن جآء صاحبها وإلا فاستمتع بها
”تم اس کے ظرف ، اس کے عدد اور اس کے تسمے کی حفاظت کرو اگر اس کا مالک آ جائے تو ٹھیک ورنہ تم اس سے فائدہ اٹھاؤ ۔“
[بخاري: 2426 ، كتاب اللقطة: باب إذا أخبره رب اللقطة بالعلامة دفع إليه]
اہل علم کے درمیان اس روایت کے متعلق اختلاف ہے ۔
(ابن حزمؒ ) ایک سال پر زیادتی غلط ہے ۔
[المحلى بالآثار: 118/7]
(ابن جوزیؒ) جو بات میرے سامنے واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ سلمہ (راوی) نے اس میں خطا کی ہے لٰہذا ثابت ہوا کہ وہ ایک سال ہی تشہیر کرتے رہے ۔
[فتح البارى: 79/5]
(منذریؒ) ائمہ میں سے کسی نے بھی تین سال کی تشہیر کا فتوی نہیں دیا ۔
[نيل الأوطار: 49/4]
بعض حضرات نے یوں تطبیق دی ہے کہ ایک سال سے زائد تشہیر کرنا مزید تقوی کی علامت ہے ، واجب نہیں ۔
[الروضة الندية: 527/2]
کیا غنی لقطہ استعمال کر سکتا ہے
(جمہور) غنی اور فقیر دونوں کے لیے تشہیر کے بعد لقطہ کو اپنی ذات پر صرف کرنا دلائل کے عموم کی وجہ سے جائز ہے ۔
[مزيد تفصيل كے ليے ديكهيے: الأم للشافعي: 72/4 ، حلية العلماء: 530/5 ، بدائع الصنائع: 202/6 ، المبسوط: 5/11 ، الكافي: ص / 426 ، الخرشي: 123/7 ، المغني: 300/8 ، كشاف القناع: 224/4 ، فتح العلام: ص / 497]
مکہ کی گمشدہ چیز بہت زیادہ تشہیر کی متقاضی ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
أنها لا تحل لقطة مكه إلا لمعرف
اور ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
ولا تحل ساقطتها إلا لمنشد
”مکہ کی گمشدہ چیز اٹھانا صرف اعلان و تشہیر کرنے والے کے لیے ہی جائز ہے ۔“
[بخارى: 2434 ، كتاب اللقطة: باب كيف تعرف لقطة أهل مكة ، مسلم: 1355]
(جمہور) مکہ کی گری پڑی چیز اٹھانے والا ہمیشہ اس کا اعلان کرے گا ۔
(احناف) حرم اور اس کے علاوہ دیگر علاقوں کی گری پڑی چیز کے احکام میں چنداں فرق نہیں ۔
[نيل الأوطار: 52/4 ، فتح الباري: 374/5]
(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے کیونکہ گذشتہ حدیث سے یہی بات ثابت ہوتی ہے ۔
تین مرتبہ اعلان کے بعد ہلکی قیمت کی گری پڑی اشیا استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں مثلاً چھڑی اور کوڑا وغیرہ
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
رخص لنا رسول الله فى العصا والسوط والحبل وأشباهه يلتقطه الرجل ينتفع به
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے چھڑی ، کوڑا ، رسی اور اس کی مثل (حقیر اشیا) کے متعلق ہمیں رخصت دی ہے کہ آدی انہیں اٹھا کر فائدہ حاصل کر لے ۔“
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 377 ، كتاب اللقطة: باب التعريف باللقطة ، ابو داود: 1717]
➋ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بازار میں ایک دینار ملا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
عرفه ثلاثا
”تین مرتبہ اس کا اعلان کرو ۔“
انہوں نے ایسا ہی کیا لیکن اس کا کوئی مالک نہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كله ”اسے تم کھا لو ۔“
[عبد الرزاق: 142/10 ، 18637]
➌ حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کوئی ہلکی (حقیر ) چیز اٹھائے مثلا رسی ، درہم یا اس کے مشابہ کوئی چیز تو :
فليعرفها ثلاثا
”تین مرتبہ اس کا اعلان کرے ۔“
اور اگر وہ چیز اس سے کچھ زیادہ قیمتی ہو تو چھ دن اعلان کرے ۔“
[احمد: 173/4 ، طبراني كبير: 273/22 ، بيهقي: 195/6]
امام شوکانیؒ رقمطراز ہیں کہ گذشتہ بیان ان اشیا کے متعلق ہے جنہیں کھایا نہیں جا سکتا اور جنہیں کھایا جا سکتا ہے انہیں بغیر اعلان کے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے (جیسا کہ آئندہ دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے) ۔
[نيل الأوطار: 45/4]
➊ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں ایک کھجور (گری ہوئی ) دیکھی تو فرمایا:
لولا أني أخاف أن تكون من الصدقة لأكلتها
”اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کی ہو سکتی ہے تو میں اسے کھا لیتا ۔“
[بخارى: 2431 ، كتاب اللقطة: باب إذا وجد تمرة فى الطريق ، مسلم: 1071 ، احمد: 174/3 ، ابو داود: 1651 ، منحة المعبود: 177/1 ، شرح معاني الآثار: 9/2 ، الحلية لأبي نعيم: 252/6 ، بيهقى: 195/6 ، ابو يعلى: 245/5 ، ابن حبان: 3693]
➋ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے ایک (گری ہوئی) کھجور دیکھی تو اٹھا کر کھا لی اور فرمایا:
لا يحب الله الفساد
”اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتے ۔“
[ابن ابي شيبة: 416/4 ، 21652]
(ابن حجرؒ) اگر وہ (میمونه رضی اللہ عنہا ) اسے نظر انداز کر دیتیں اور اسے کوئی نہ اٹھاتا تو وہ پڑی پڑی خراب ہو جاتی (اس لیے انہوں نے اس کھجور کو اٹھا کر کھا لیا) ۔
[فتح الباري: 371/5]
اونٹ کے علاوہ دیگر گمشدہ جانوروں کو پکڑا جا سکتا ہے
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پکڑنے سے منع فرمایا اور پھر بکری کے متعلق فرمایا:
خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب
”اسے پکڑ لو کیونکہ یہ محض تمہارے لیے یا تمہارے بھائی کے لیے یا بھیڑیے کے لیے ہے ۔“
[بخارى: 2428 ، كتاب فى اللقطة: باب ضالة الغنم]
➋ حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من آوى ضالة فهو ضال ما لم يعرفها
”جو کسی بھی گمشدہ چیز کو اٹھائے وہ گمراہ ہے جب تک کہ اس کی تشہیر نہ کرے ۔“
[مسلم: 1725 ، كتاب اللقطة: باب فى لقطة الحاج ، ابو داود: 1720 ، احمد: 460 ، ابن ماجة: 2503]
واضح رہے کہ لفظ ضالة بکری اور اس کے علاوہ دیگر اشیا پر بھی بولا جا سکتا ہے ۔
نواب صدیق حسن خانؒ رقمطراز ہیں کہ بکری کے مثل ہونے کی وجہ سے باقی جانوروں کو بھی اسی حکم میں شامل کیا جائے گا ۔
[الروضة الندية: 529/2]
اونٹ وغیرہ کو اٹھانے کی ممانعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے:
مالك ولها؟ دعها
”تیری اس سے کیا نسبت؟ اسے چھوڑ دو ۔“
[مزيد تفصيل كے ليے ديكهيے: الأم: 84/4 ، فتح الوهاب: 262/1 ، بدائع الصنائع: 200/6 ، المبسوط: 10/11 ، الكافى: ص / 427 ، الخرشي: 127/7 ، المغني: 343/8 ، كشاف القناع: 210/4 ، فتح العلام: ص / 497 ، سبل السلام: 126/3]
❀ ایسے حیوان جو چھوٹے درندوں سے اپنی جان محفوظ رکھ سکتے ہیں مثلاً اونٹ ، گھوڑا ، گائے ، اُڑنے والے پرندے یا چیتا وغیرہ انہیں پکڑنا حاکم اور اس کے نائب کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں ۔
[نيل الأوطار: 35/4 ، الروضة الندية: 529/2]