لفظ "کان” کے استعمال سے متعلق 6 شرعی رہنما اصول
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

لفظ "کان” کا استعمال

کیا "کان” کسی فعل کی ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے؟

مقدمہ

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات زبانِ عرب میں اصولی طور پر مسلم ہے کہ جب "کان” کسی فعل مضارع پر داخل ہوتا ہے تو وہ "ماضی استمراری” کے معنی دیتا ہے۔ مگر کیا یہ ہمیشہ کسی کام کی ہمیشگی اور دائمی عادت پر دلالت کرتا ہے؟ اس پر مختلف روایات اور اقوال کی روشنی میں تفصیل پیش کی جاتی ہے۔

"کان” کے ماضی استمراری ہونے کا ثبوت

صحیح بخاری کی روایت:

«ان رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم کان يرفع يديه حذومنکبيه إذا فتتح الصلاة وإذا کبر لرکوع وإذا رفع راسه من الرکوع رفعهما کذلک»
(صحیح بخاری)

ترجمہ:
"بے شک رسول اللہ ﷺ جب بھی نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں مونڈھوں تک اٹھاتے، اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے، تب بھی ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے، تو بھی دونوں ہاتھ اٹھاتے۔”

یہ روایت اس امر کی دلیل ہے کہ "کان” کا استعمال یہاں ایک مستقل عادت یا معمول کو ظاہر کرتا ہے۔

"کان” کا دوام و ہمیشگی پر دلالت کرنا

امام زیلعی  کا قول:

«عن علی أن النبی کان يتوضا ثلاثا ثلاثا إلا المسح فانه مرة مرة وهذا أصرح فی المقصود لأصحابنا فانه بلفظ کان، المقتضية للدوام»
(نصب الرایۃ: 1؍31، دارنشرالکتاب الاسلامیہ، شارع شیش محل لاہور)

امام زیلعیؒ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "کان” کا لفظ دوام (ہمیشگی) کو ظاہر کرتا ہے، یعنی نبی اکرمؐ ہمیشہ وضو کے دوران اعضاء تین تین بار دھوتے تھے اور مسح ایک ہی مرتبہ فرماتے تھے۔ یہ روایت حنفی فقہاء کے مقصود کو بھی واضح کرتی ہے۔

دوام نہ ہونے کی صورت میں "کان” کا استعمال

مفتی احمد یار خان نعیمیؒ کا جواب:

"اس حدیث میں سیر و تفریح کے لیے صرف ذوالحلیفہ تک جانے کا ذکر نہیں ہے بلکہ یہاں حضورؐ کے حجۃ الوداع کا واقعہ بیان ہورہا ہے کہ سرکار بہ ارادہ حج مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔ ذوالحلیفہ پہنچ کر وقت عصر آگیا تو چونکہ آپ آگے جارہے تھے لہٰذا یہاں قصر فرمایا۔ اس لیے یہاں فرمایا گیا ‘صلی الظھر’ ایک بار یہ واقعہ ہوا، ‘کان يصلی’ نہ فرمایا جس سے معلوم ہوتا کہ آپ ہمیشہ ایسا کیا کرتے تھے۔”
(جاء الحق : 2؍547، نعیمی کتب خانہ، غزنی سٹریٹ، لاہور)

یہاں مفتی صاحب نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اگر واقعہ ایک دفعہ ہی پیش آیا ہو تو وہاں "کان” کا استعمال نہیں ہوتا بلکہ ماضی مطلق یعنی "صلی” وغیرہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ہمیشہ کا عمل بیان کرنا ہو تو "کان” استعمال ہوتا ہے۔

فعل مضارع سے بھی دوام کا مفہوم

امتیازات مصطفیٰ کے اردو ترجمہ سے اقتباس:

﴿إِنَّ ٱللَّهَ وَمَلَٰٓئِكَتَهُۥ يُصَلُّونَ عَلَى ٱلنَّبِيِّۚ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ صَلُّواْ عَلَيۡهِ وَسَلِّمُواْ تَسۡلِيمًا﴾
–الاحزاب 56

مفتی محمد خان قادری صاحب نے "یصلون” کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا:

"اس آیت مبارکہ میں يصلون، فعل مضارع کا صیغہ ہے جو کسی چیز کے بار بار اور مسلسل کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔”
(امتیازات مصطفی: ص75، حجاز پبلی کیشنز، لاہور)

یہاں پر فعل مضارع کے ذریعے ہمیشگی اور دوام کو واضح کیا گیا ہے۔

"کان” کا عدمِ استمرار پر دلالت کرنا

صحیح بخاری کی روایت:

«کان رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم يصلی وهو حامل امامه بنت زينب فإذا سجدوضعها وإذا قام حملها»
(صحیح بخاری: 516)

ترجمہ:
"رسول اللہ ﷺ نماز میں امامہ بنت زینب کو اٹھائے ہوئے تھے۔ جب سجدہ کرتے تو انہیں نیچے رکھ دیتے، اور جب کھڑے ہوتے تو پھر اٹھا لیتے۔”

یہاں کان کا استعمال کسی مستقل عادت کے لیے نہیں بلکہ ایک خاص موقع کے واقعہ کے لیے ہوا ہے، جس کا قرینہ خود سیاق و سباق میں موجود ہے کہ یہ ایک اتفاقی عمل تھا، نہ کہ ہمیشہ کیا جانے والا عمل۔

نتیجہ

مندرجہ بالا دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:

  • ◈ "کان” جب فعل مضارع کے ساتھ آتا ہے تو عمومی طور پر ماضی استمراری (یعنی کسی عمل کی ماضی میں ہمیشگی یا تکرار) کے معنی دیتا ہے۔
  • ◈ کئی مقامات پر یہ دوام اور ہمیشگی کو ظاہر کرتا ہے، جیسے نماز میں ہاتھ اٹھانا یا وضو کے اعضاء کو تین مرتبہ دھونا۔
  • ◈ بعض مواقع پر "کان” کا استعمال کسی عارضی یا اتفاقی واقعہ کے لیے بھی ہوتا ہے، اور ایسے مواقع پر سیاق و سباق سے اس کی وضاحت ہوجاتی ہے۔
  • ◈ فعل مضارع بھی دوام اور استمرار کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ آیتِ مبارکہ ﴿يصلون﴾ میں ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1