لفظ مولانا یا مولیٰ کا غیر اللہ کے لیے استعمال کا حکم
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، ج1، ص93

سوال:

کیا لفظ "مولانا” یا "مولیٰ” کا استعمال اللہ کے علاوہ انسان، جن یا کسی اور مخلوق کے لیے جائز ہے؟ (محمد ایوب)

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولا حول ولا قوة الا باللہ۔

لفظ "مولانا” یا "مولیٰ” کا اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے استعمال بلا کراہت جائز ہے، اور اس کے جواز پر کئی احادیث دلالت کرتی ہیں۔

پہلی حدیث:

📖 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لاَ يَقُلْ أَحَدُكُمْ: أَطْعِمْ رَبَّكَ وَضِّئْ رَبَّكَ، اسْقِ رَبَّكَ، وَلْيَقُلْ: سَيِّدِي مَوْلاَيَ، وَلاَ يَقُلْ أَحَدُكُمْ: عَبْدِي أَمَتِي، وَلْيَقُلْ: فَتَايَ وَفَتَاتِي وَغُلاَمِي”

(ترجمہ:)
"تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ اپنے رب کو کھلا، اپنے رب کو پلا، اپنے رب کو وضو کرا، اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا رب، بلکہ کہے: میرا سید، میرا مولیٰ۔ اور تم میں سے کوئی یہ نہ کہے: میرا بندہ یا میری بندی، بلکہ کہے: میرا لڑکا، میری لڑکی، میرا غلام۔”

(صحیح بخاری: 3/124، صحیح مسلم: 2/316)

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ "مولیٰ” کا لفظ غیر اللہ کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کے جواز کی تصریح فرمائی۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق:

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"السید (اللہ تعالیٰ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے) لیکن حدیثِ مرفوع میں کہیں یہ ثابت نہیں کہ مولیٰ صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔ جب "السید” کا اطلاق غلام کے آقا پر جائز ہے، تو "مولیٰ” کا اطلاق بطریقِ اولیٰ جائز ہوگا، خصوصاً جب یہ لفظ ادنیٰ (غلام) پر بھی بولا جاتا ہے۔”

(السلسلة الصحيحة: 2/55)

لہٰذا، "مولیٰ” کا اطلاق انسانوں پر کیا جانا شرعاً درست ہے۔

دوسری حدیث:

📖 حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

"أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ”، وَقَالَ لِجَعْفَرٍ: "أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي”، وَقَالَ لِزَيْدٍ: "أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلاَنَا”

(ترجمہ:)
"آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں۔ اور جعفر (بن ابی طالب) سے فرمایا: تم میری شکل و صورت اور اخلاق میں مجھ سے مشابہ ہو۔ اور زید (بن حارثہ) سے فرمایا: تم ہمارے بھائی اور ہمارے مولیٰ ہو۔”

(صحیح بخاری و صحیح مسلم، مشکوٰۃ: 2/293)

یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ "مولیٰ” کا اطلاق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ پر کیا، جو اس کے جواز پر قطعی دلیل ہے۔

"مولیٰ” کے متعدد معانی

لفظ "مولیٰ” کے کئی معانی ہیں، جو تقریباً چودہ (14) تک پہنچتے ہیں۔ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور غیر اللہ کے لیے بھی۔

مسلم (2/228) میں ایک حدیث موجود ہے جس میں آیا ہے کہ غلام اپنے مالک کو "مولیٰ” نہ کہے، لیکن اس روایت کے الفاظ میں اختلاف ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"امام مسلم رحمہ اللہ نے اعمش پر اختلاف بیان کیا ہے کہ بعض نے "مولیٰ” نہ کہنے کا ذکر کیا ہے، جبکہ بعض نے حذف کیا ہے۔ امام عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حذف کرنا زیادہ صحیح ہے، اور امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کا حذف مشہور ہے۔”

(فتح الباری، الصحیحہ: 2/453-454)

لہٰذا، اس روایت کے غیر ثابت ہونے کی بنا پر، "مولیٰ” کا عام استعمال ممنوع نہیں بلکہ جائز ہے۔

دیگر کتب میں "مولیٰ” کے استعمال کا جواز

📖 سنن ابی داؤد (کتاب الأدب، 2/332) میں آیا ہے:

"اور چاہئے کہ کہے: میرے مولیٰ”

یہ بھی اس لفظ کے استعمال کے جواز کو واضح کرتا ہے۔

خلاصہ اور شرعی حکم

لفظ "مولیٰ” اور "مولانا” کا غیر اللہ کے لیے استعمال شرعی طور پر جائز ہے۔
صحیح احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو "مولیٰ” فرمایا۔
کسی بھی شرعی دلیل میں یہ ثابت نہیں کہ "مولیٰ” کا استعمال اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے ممنوع ہے۔
یہ لفظ قرآن و حدیث میں مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے، اور علمائے اہل سنت کے نزدیک اس کے جواز میں کوئی شک نہیں۔
البتہ، اگر کسی خاص سیاق و سباق میں اس کا ایسا مفہوم لیا جائے جو شرعی اصولوں کے خلاف ہو، تو اس کا استعمال ناپسندیدہ ہو سکتا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1