لفظ ‘ظن’ کے حقیقی معانی اور حدیث کی حیثیت

امام راغب رحمہ اللہ کی تعریف:

مفردات امام راغب کے مطابق، "ظن” کسی چیز کی علامت سے حاصل ہونے والے نتیجے کو کہتے ہیں۔
◄ جب علامات قوی ہوں تو "ظن” کا مطلب یقین یا علم بن جاتا ہے۔
◄ اگر علامات کمزور ہوں تو "ظن” کا مطلب وہم اور گمان تک محدود رہتا ہے۔

ظن بمعنی یقین و علم:

قرآن مجید میں متعدد آیات میں "ظن” کا لفظ یقین اور علم کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

سورہ البقرہ (46):
الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ
(ترجمہ: جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں۔)

سورہ البقرہ (249):
قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُوا اللَّهِ
(ترجمہ: کہا ان لوگوں نے جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے روبرو حاضر ہوں گے۔)

سورہ القیامۃ (28):
وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ
(ترجمہ: اور اس نے یقین کر لیا کہ اب جدائی کا وقت ہے۔)

ظن بمعنی وہم و گمان:

جب ظن کمزور ہو اور وہم کے درجے سے آگے نہ بڑھے تو قرینہ کے طور پر "ان” یا "اِنَّ” استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ:

سورہ آل عمران (154):
يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ
(ترجمہ: وہ اللہ کے بارے میں زمانۂ جاہلیت کے گمان رکھتے ہیں۔)

سورہ النجم (28):
وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا
(ترجمہ: بے شک ظن حق کے مقابلے میں کچھ فائدہ نہیں دیتا۔)

سورہ الفتح (6):
الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ
(ترجمہ: وہ لوگ جو اللہ کے بارے میں برے گمان رکھتے ہیں۔)

سورہ الجاثیہ (32):
إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ
(ترجمہ: ہم تو محض گمان کرتے ہیں اور یقین نہیں رکھتے۔)

"طلوع اسلام” کی غلط تعبیر

طلوع اسلام نے قرآن کے لفظ "ظن” کو صرف وہم اور گمان کے معنوں میں پیش کیا ہے اور ان آیات کو نظرانداز کیا ہے جہاں "ظن” یقین و علم کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
◄ وہ دلیل دیتے ہیں کہ دین قطعی اور یقینی ہونا چاہیے۔
◄ حدیث ظنی ہونے کے سبب قابل قبول نہیں۔

ان کے دلائل:

سورہ البقرہ (2):
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ
(یہ کتاب وہ ہے جس میں کوئی شک نہیں۔)

سورہ فاطر (31):
وَالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ هُوَ الْحَقُّ
(ترجمہ: جو کتاب ہم نے آپ کو وحی کی ہے وہ سچی ہے۔)

سورہ یونس (36):
وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا
(ترجمہ: ان میں سے اکثر لوگ محض گمان کی پیروی کرتے ہیں۔)

مغالطے کی حقیقت

بنیادی سوالات:

◄ کیا قرآن کے الفاظ ہی قطعی ہیں یا ان کا مفہوم بھی؟
◄ اگر مفہوم ظنی ہے، تو کس کی تعبیر قرآن کے قریب ہے؟ محدثین کی یا منکرین حدیث کی؟

جواب:

◄ قرآن کے الفاظ قطعی ہیں، لیکن ان کا مفہوم ظنی ہے۔
◄ منکرین حدیث خود بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ جیسا کہ پرویز صاحب لکھتے ہیں:
"میری قرآنی بصیرت سہو و خطا کا امکان رکھتی ہے۔”

ظن اور احادیث

احادیث کی حیثیت:

قطعی و ظنی دلالت:
◈ حدیث کا ایک بڑا حصہ قطعی ہے۔
◈ اگر حدیث ظنی ہے تو قرآن کی کئی آیات بھی ظنی الدلالہ ہیں کیونکہ ان میں متعدد معانی کا احتمال ہوتا ہے۔

ظن کی مذمت:

◄ قرآن نے اس ظن کی مذمت کی ہے جو محض وہم اور گمان ہو۔
◄ احادیث نبویہ مضبوط تحقیق اور محدثین کی جانچ پڑتال کے بعد بھی ظنی کہلائی جاتی ہیں۔

خلاصہ

◄ قرآن کے الفاظ قطعی ہیں، لیکن مفہوم و تفسیر ظنی ہے۔
◄ احادیث کو محض ظنی ہونے کی وجہ سے رد کرنا غیر منصفانہ ہے۔
◄ دین میں ظن کی اتباع کی ممانعت کا مطلب وہم و گمان کی پیروی ہے، نہ کہ معتبر احادیث۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے