لبرلزم اور الحاد: دو ہمسفر نظریات
لبرلزم اور الحاد کے درمیان ایک گہرا ربط پایا جاتا ہے، جسے "باہمی سہولت کاری” کہا جا سکتا ہے۔ یہ دونوں نظریات یوں آگے بڑھتے ہیں جیسے ایک ہی کشتی کے دو سوار ہوں، جن کی منزل بھی ایک ہو اور انجام بھی۔ لبرلزم کی فطری ترقی کا حتمی نتیجہ بالآخر الحاد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ درحقیقت، لبرلزم الحاد کا پیش خیمہ یا ہراول دستہ ہے، اور یہ دونوں نظریات ایمانی معاشروں پر حملہ کرتے وقت اپنی ترتیب سے آگے بڑھتے ہیں: ایک نظریہ راستہ ہموار کرتا ہے اور دوسرا اس ہموار راستے پر تیزی سے قابض ہوتا ہے۔
لبرلزم: راستہ صاف کرتا، الحاد: منزل پر قابض ہوتا
- لبرلزم معاشرے میں کچھ خالی جگہیں چھوڑتا ہے جنہیں الحاد خود بخود پر کرتا ہے۔
- ہمارے تعلیمی ادارے اس خطرناک تبدیلی کا سب سے بڑا نشانہ بن رہے ہیں، جہاں نوجوان ذہن لبرلزم کے بعد الحاد کی جانب بہکنے لگتے ہیں۔
- یہ نظریاتی تبدیلی خفیہ نہیں، بلکہ کھلی آنکھوں کے سامنے ہو رہی ہے، لیکن افسوس کہ بعض لوگ اس خطرے سے غافل ہیں۔
لبرلزم اور الحاد کا جوڑ: چند بنیادی نکات
- لبرلزم اور الحاد دو مختلف سطحوں پر ایک ہی منصوبے کا حصہ ہیں۔
- لبرلزم کی کئی اقسام ہیں اور الحاد کی بھی مختلف صورتیں موجود ہیں، جیسے خدا کے وجود کا انکار الحاد کی صرف ایک قسم ہے۔
- ہمارے بعض مذہبی حلقے یہ سمجھنے میں ناکام ہیں کہ لبرلزم اور الحاد کو الگ رکھنا محض خوش فہمی ہے۔
الحاد سے پاک لبرلزم؟ ایک فریب یا سادگی؟
بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ "الحاد سے پاک” لبرلزم ممکن ہے، لیکن درحقیقت یہ یا تو سادہ لوحی ہے یا لبرلزم کی چالاک مارکیٹنگ کا نتیجہ۔
- جو لوگ لبرلزم کو مذہب سے متصادم نہیں سمجھتے، وہ اس بات سے غافل ہیں کہ لبرلزم کا اصل مقصد ہی معاشرے کو مذہب کی گرفت سے آزاد کروانا ہے۔
- البتہ اگر کوئی شخص اسلامی اصول، جیسے نبی کریم ﷺ کی اطاعت اور اللہ کی عبادت کو انسانیت پر واجب مانتا رہے، تو وہ حقیقی معنوں میں لبرلزم کے بنیادی عقائد کو کبھی قبول نہیں کر سکتا۔
اسلامی بھائیوں کے لیے نرمی، لیکن لبرلز کے لیے نہیں
- جو لوگ غلط فہمی کا شکار ہو کر لبرلزم کی حمایت کر بیٹھے ہیں لیکن اپنے بنیادی اسلامی عقیدے پر قائم ہیں، ان کے لیے اہل سنت کے اصول "لَازِمُ الۡقَوۡلِ لَيۡسَ بِقَوۡلٍ” کے تحت عذر موجود ہے۔
- تاہم، وہ لبرلز جو محمد ﷺ کی اطاعت اور اسلامی شریعت کی پابندی کو رد کرتے ہیں، ان کے لیے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔
لبرلزم اور اسلامی قوانین کے درمیان جنگ
یہ دعویٰ غلط ہے کہ لبرلزم مذہب کے صرف جبری نفاذ کا مخالف ہے۔
- لبرلز درحقیقت ہر اُس قانون سے اختلاف رکھتے ہیں جس کا ماخذ دین اسلام ہو، چاہے وہ اکثریتی منشا سے ہی کیوں نہ منظور ہوا ہو۔
- لبرلز پاکستان کے اُن قوانین کے خلاف مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں جو اسلامی تعلیمات سے ماخوذ ہیں، اور جیسے ہی ان قوانین پر عملدرآمد کی کوشش ہوتی ہے، لبرل طبقہ فوراً مزاحمت پر اُتر آتا ہے۔
ریاستی قوانین اور اکثریتی منشا کا لبرل نقطہ نظر
لبرلز "اکثریتی منشا” اور "ریاستی قوانین” کا حوالہ صرف اس وقت دیتے ہیں جب یہ ان کے مقاصد کے حق میں ہو۔
لیکن ان کے ہاں ریاست کا اصل تصور "دین سے آزاد” ریاست ہے، جہاں قانون سازی مذہب کے بجائے انسانوں کی خواہشات کے مطابق ہو۔
لبرلزم کا اصل مقصد: خدا کی اطاعت سے آزادی
لبرلزم کا اصل الاصول یہ ہے کہ انسان اور اس کی ریاست خدا کی اطاعت سے مکمل طور پر آزاد ہوں۔
وہ قوانین، جو خدا کی دی ہوئی ہدایات سے ماخوذ ہوں، لبرلزم کی نظر میں ناقابل قبول ہیں۔
نتیجہ: لبرلزم، الحاد اور امت مسلمہ کی ذمہ داری
لبرلزم کی اصل حقیقت اور اس کے نتیجے میں آنے والے الحاد کو نظر انداز کرنا امت مسلمہ کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ ہمیں نہ صرف ان نظریات کا علمی رد پیش کرنا ہوگا بلکہ اپنے تعلیمی اداروں، میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ میں بھی ان نظریات کے اثرات کا تدارک کرنا ہوگا۔