لا ضرر و لا ضرار: اسلامی معاشرت کا عدل و احسانی اصول
اس مضمون میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جامع کلمات میں سے عظیم قاعدۂ شرعی (لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ) کی توضیح کی جاتی ہے۔ ابتدا میں جامع کلم کی حقیقت اور اس اصول کے تین معتبر مفاہیم بیان ہوں گے، پھر ایمان، خیر خواہی اور عدل کے عمومی قواعد سے اس کی بنیاد واضح کی جائے گی، اور آخر میں عبادات و معاملات، خانگی زندگی، ہمسائیگی اور سماجی حقوق میں اس قاعدے کے عملی اطلاقات پیش کیے جائیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ قاری کے سامنے یہ بات روشن ہو جائے کہ شریعت ہر حال میں نقصان رسانی کو روکتی ہے—چاہے خود پر ہو یا دوسروں پر، قصداً ہو یا بلا قصد، ابتداءً ہو یا بدلہ لیتے ہوئے۔
جامع کلمات کی نعمت
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ آپ کو جوامع الکلم عطا ہوئے—الفاظ کم، معانی وسیع۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(فُضِّلْتُ عَلَی الْأنْبِیَائِ بِسِتٍّ :أُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ ، وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ ، وَجُعِلَتْ لِیَ الْأرْضُ طَہُوْرًا وَّمَسْجِدًا ، وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً ، وَخُتِمَ بِی النَّبِیُّوْنَ ) [ مسلم : ۵۲۳]
ترجمہ: ’’مجھے چھ امور کے ساتھ دوسرے انبیاء پر فضیلت دی گئی: مجھے جامع کلمات عطا ہوئے، رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی، میرے لیے مالِ غنیمت حلال کیا گیا، زمین میرے لیے طہارت کا ذریعہ اور سجدہ گاہ بنائی گئی، مجھے تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا اور میرے ذریعے نبوت ختم کی گئی۔‘‘
اصل موضوع: لا ضرر و لا ضرار
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا:
( لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ) [ ابن ماجہ : ۲۳۴۰۔ وصححہ الألبانی ]
ترجمہ: ’’نہ (کسی کو) نقصان پہنچانا ہے اور نہ (نقصان کا) بدلہ میں نقصان۔‘‘
اس حدیث کے تین معتبر مفاہیم
◈ اوّل: (لا ضرر) یعنی بلا قصد بھی کسی کو نقصان پہنچانا جائز نہیں، اور (لا ضرار) یعنی قصداً کسی کو نقصان پہنچانا بھی حرام ہے۔
مثال: اپنے گھر کے درختوں کو پانی دینا فی نفسہٖ مباح ہے، مگر اگر پڑوسی کو ضرر لاحق ہو—چاہے قصد سے یا بلا قصد—تو ممنوع ہوگا۔
◈ دوم: (لا ضرر) یعنی آدمی خود اپنے آپ کو نقصان نہ دے، اور (لا ضرار) یعنی دوسروں کو بھی نقصان نہ پہنچائے۔ اس مفہوم پر آیت دلیل ہے:
﴿ لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ ﴾ [ البقرۃ : ۲۳۳]
ترجمہ: ’’نہ ماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کے بچے کے سبب۔‘‘
ماں کو ضرر کی صورتیں: دودھ پلوا کر اخراجات نہ دینا، بچے کو ماں سے جدا کر دینا، یا زبردستی دودھ پلانے پر مجبور کرنا۔ باپ کو ضرر: طاقت سے بڑھ کر نفقہ کا مطالبہ یا محض ایذا کے لیے ماں کا دودھ پلانے سے انکار۔
◈ سوم: (لا ضرر) یعنی ابتدا میں کسی کو ضرر نہ دیا جائے، اور (لا ضرار) یعنی اگر بدلہ لیا جائے تو اپنے نقصان سے زیادہ بدلہ نہ لیا جائے۔
دلیل: ﴿ وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَھُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ ﴾ [ النحل : ۱۲۶ ]
ترجمہ: ’’اگر بدلہ لو تو اتنا ہی لو جتنی تم پر زیادتی ہوئی، اور اگر صبر کرو تو یہ صابرین کے لیے بہتر ہے۔‘‘
خلاصۂ مفہوم: اس قاعدے کے تحت نہ خود کو نقصان دینا جائز ہے، نہ دوسروں کو؛ نہ قصداً، نہ بلا قصد؛ نہ ابتداءً، نہ بدلہ میں حد سے بڑھ کر—ہر صورت میں ضرر حرام ہے۔
اس قاعدے کی بنیادیں (اصولِ عامہ)
1) اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرنا جو اپنے لیے
( لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ ) [ البخاری : ۱۳ ومسلم : ۴۵]
ترجمہ: ’’تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔‘‘
مسند احمد کی روایت:
( لَا یَبْلُغُ عَبْدٌ حَقِیْقَۃَ الْإِیْمَانِ حَتّٰی یُحِبَّ لِلنَّاسِ مَا یُحِبُّہُ لِنَفْسِہِ مِنَ الْخَیْرِ) [ مسند احمد ج ۳ ص ۲۰۶ … وابن حبان … حدیث : ۲۳۵]
ترجمہ: ’’بندہ حقیقتِ ایمان تک نہیں پہنچتا جب تک لوگوں کے لیے وہی خیر پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔‘‘
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے:
( أَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ تَکْن مُّؤْمِنًا ) [ابن ماجہ : ۴۲۱۷]
اور ایک روایت میں: (تَکُن مُّسْلِمًا) [ الترمذی : ۲۳۰۵ ]
ترجمہ: ’’لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو؛ (ایسا کروگے تو) تم مؤمن/مسلمان بن جاؤ گے۔‘‘
دو بڑے ثمرات:
◈ جنت کا داخلہ: یزید بن اسد القسری رضی اللہ عنہ والی روایت:
( فَأَحِبَّ لِأَخِیْکَ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ ) [ مسند أحمد ج ۴ ص ۷۰ ]
◈ جہنم سے دوری:
( مَنْ أَحَبَّ أَن یُّزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ … وَیَأْتِی إِلَی النَّاسِ الَّذِیْ یُحِبُّ أَن یُّؤْتٰی إِلَیْہِ ) [ مسلم : ۱۸۴۴]
ترجمہ: ’’جو جہنم سے دوری اور جنت میں داخلہ چاہے… لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرے جو اپنی طرف ہونا پسند کرتا ہے۔‘‘
2) ہر مسلمان کے لیے خیر خواہی
( بَایَعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ … عَلٰی … وَالنُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ ) [ البخاری : ۱۴۰۱، مسلم : ۵۶]
ترجمہ: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر مسلمان کے لیے خیر خواہی پر بیعت کی۔‘‘
3) حقیقی مسلمان کون؟
( اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِن لِّسَانِہِ وَیَدِہِ ) [ البخاری : ۱۰ ، مسلم : ۴۱ ]
اور افضل المسلم: ( مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِن لِّسَانِہِ وَیَدِہِ ) [ مسلم : ۴۰ ]
ترجمہ: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان و ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
4) عدل و قسط: انفرادی و اجتماعی ضرر کی حرمت
اللہ تعالیٰ نے معاشرے کو عدل پر قائم رکھنے کے لیے انبیاء، کتاب اور میزان بھیجی تاکہ حق دار کو حق ملے اور کسی پر زیادتی و ضرر نہ ہو:
﴿لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾ [الحدید: ۲۵]
ترجمہ: ’’ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب و میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔‘‘
’میزان‘ میں ماپ تول کے پیمانے بھی شامل ہیں تاکہ معاملات میں حقوق محفوظ رہیں اور ظلم و نقصان کا دروازہ بند ہو۔ وسیع تر معنی میں یہی نظامِ عدل معاشرے کے ہر فرد—مسلمان و غیر مسلم—سب کے حقوق کی نگہبانی کرتا ہے:
﴿ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا ﴾ [المائدۃ: ۲]
ترجمہ: ’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں زیادتی پر آمادہ نہ کرے اگرچہ انہوں نے تمہیں مسجدِ حرام سے روکا ہو۔‘‘
﴿ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی﴾ [المائدۃ: ۸]
ترجمہ: ’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں عدل چھوڑنے پر مجبور نہ کرے؛ عدل کرو کہ یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘
اہلِ ایمان کو بلا وجہ تکلیف دینا سخت گناہ ہے اور اس کا انجام نہایت خطرناک:
﴿وَالَّذِیْنَ یُؤذُوْنَ الْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُہْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا﴾ [الأحزاب: ۵۸]
ترجمہ: ’’جو مؤمن مردوں اور عورتوں کو بلاوجہ ایذا دیتے ہیں وہ بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( مَنْ ضَارَّ ضَارَّ اللّٰہُ بِہِ ، وَمَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللّٰہُ بِہِ ) [ابن ماجہ: ۲۳۴۲]
ترجمہ: ’’جو (لوگوں کو) نقصان پہنچاتا ہے اللہ اس کو نقصان پہنچاتا ہے، اور جو (لوگوں پر) سختی کرتا ہے اللہ اس پر سختی کرتا ہے۔‘‘
ضرر تو شرعی احکام میں بھی ممنوع ہے
اللہ ربّ العزّت نے بندوں پر شریعت میں بھی ضرر کو پسند نہیں فرمایا؛ جہاں ضرر کا اندیشہ ہو وہاں یسر و رخصت عطا فرمائی:
① وضو کے بجائے تیمم
اصل حکم:
( لاَ یَقْبَلُ اللّٰہُ صَلَاۃَ أَحَدِکُمْ إِذَا أَحْدَثَ حَتّٰی یَتَوَضَّأَ ) [البخاری: ۶۹۵۴، مسلم: ۲۲۵]
ترجمہ: ’’جب تم میں سے کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو اللہ اس کی نماز قبول نہیں کرتا، یہاں تک کہ وہ وضو کر لے۔‘‘
رخصت: بیماری یا پانی کے ضرر/عدمِ دستیابی کی صورت میں تیمم کی اجازت—تاکہ ضرر نہ ہو اور عبادت فوت نہ ہو۔
② قیام کے بجائے قعود/اضطجاع
اصل حکمِ قیام:
﴿حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ … وَ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ﴾ [البقرۃ: ۲۳۸]
ترجمہ: ’’نمازوں (خصوصاً درمیانی نماز) کی حفاظت کرو اور اللہ کے لیے ادب سے کھڑے ہو۔‘‘
عاجز کے لیے تخفیف:
( صَلِّ قَائِمًا ، فَإِن لَّمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا ، فَإِن لَّمْ تَسْتَطِعْ فَعَلٰی جَنْبٍ ) [البخاری: ۱۱۱۷]
ترجمہ: ’’کھڑے ہو کر نماز پڑھو؛ استطاعت نہ ہو تو بیٹھ کر؛ یہ بھی نہ ہو تو پہلو کے بل (لیٹ کر)۔‘‘
③ امام کی قراءت میں مراعات
امام کے لیے قراءت طویل رکھنا جائز ہے، مگر مقتدیوں پر مشقت/ضرر ہو تو اختصار لازم:
( یَا أَیُّہَا النَّاسُ ! إِنَّ مِنْکُمْ مُّنَفِّرِیْنَ … فَمَنْ أَمَّ النَّاسَ فَلْیَتَجَوَّزْ ، فَإِنَّ خَلْفَہُ الضَّعِیْفَ وَالْکَبِیْرَ وَذَا الْحَاجَۃِ ) [البخاری: ۷۰۴، مسلم: ۴۶۶]
ترجمہ: ’’اے لوگو! تم میں کچھ (لمبا کر کے) متنفر کرنے والے ہیں؛ جو لوگوں کی امامت کرے وہ (نماز) مختصر کرے، کیونکہ اس کے پیچھے کمزور، بوڑھا اور ضرورت مند (بھی) ہوتا ہے۔‘‘
نتیجۂ جزوی: ان مثالوں سے واضح ہے کہ شریعت کا منہج بندوں کے لیے سہولت اور ضرر سے حفاظت ہے؛ پس مسلمان پر لازم ہے کہ دوسروں کو نقصان پہنچانے سے کلیۃً بچے۔
ضرر رسانی کی صورتیں: معاشرتی مثالیں
آگے ہم عصرِ حاضر میں رائج ضرر رسانی کی نمایاں صورتیں ذکر کریں گے—خصوصاً لین دین، خاندانی حقوق، وصیت، پڑوس اور اجتماعی مقامات سے متعلق—اور ہر ایک پر نصوصِ شرعیہ اور عملی مثالیں پیش کریں گے تاکہ قاعدۂ ’’لا ضرر‘‘ زندگی کے ہر باب میں نافذ ہو۔
لین دین کے معاملات میں ضرر رسانی
اسلامی شریعت میں لین دین کا نظام عدل، امانت اور خیر خواہی پر قائم ہے۔ لہٰذا معاملات میں کسی بھی قسم کا دھوکہ، فریب یا نقصان رسانی حرام ہے، کیونکہ اس سے دوسروں کو ضرر پہنچتا ہے، جو حدیث (لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ) کے صریح خلاف ہے۔ آج کے معاشرے میں اس قاعدے کی خلاف ورزیاں بہت عام ہیں۔ ذیل میں چند اہم صورتیں بیان کی جاتی ہیں:
❀ ① دھوکہ دہی اور ملاوٹ
اشیاء فروخت کرتے وقت ان میں ملاوٹ کرنا یا نقص چھپانا ضرر رسانی کی بدترین شکل ہے۔
نبی کریم ﷺ کا عمل ملاحظہ ہو:
(أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ مَرَّ عَلٰی صُبْرَۃِ طَعَامٍ فَأَدْخَلَ یَدَہٗ فِیْہَا فَنَالَتْ أَصَابِعُہٗ بَلَلًا، فَقَالَ: مَا ہٰذَا یَا صَاحِبَ الطَّعَامِ؟ قَالَ: أَصَابَتْہُ السَّمَاءُ۔ قَالَ: أَفَلَا جَعَلْتَہُ فَوْقَ الطَّعَامِ کَیْ یَرَاہُ النَّاسُ! مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّی ) [مسلم: ۱۰۲]
ترجمہ: ’’نبی ﷺ ایک غلے کے ڈھیر کے پاس سے گزرے، آپ نے اس میں ہاتھ ڈالا تو اندر نمی پائی۔ فرمایا: اے غلہ بیچنے والے! یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: اسے بارش نے تر کر دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے اسے اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ دیکھ لیں! جو دھوکہ دے، وہ مجھ سے نہیں۔‘‘
❀ ② عیب دار چیز چھپانا
بیچنے والا اگر مال میں کوئی نقص جانتا ہو تو خریدار کو واضح کرنا لازم ہے، ورنہ وہ اس کے ساتھ ضرر کا مرتکب ہوتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
( اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، وَلَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِیْہِ بَیْعًا فِیْہِ عَیْبٌ إِلَّا بَیَّنَہُ لَہُ ) [ابن ماجہ: ۲۲۴۶]
ترجمہ: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اور کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو عیب دار چیز بیچے مگر یہ کہ عیب ظاہر کر دے۔‘‘
❀ ③ ماپ تول میں کمی بیشی
قرآن کریم نے اس جرم پر سخت وعید سنائی:
﴿ وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ ٭ الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ ٭ وَاِذَا کَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ ﴾ [المطففین: 1–3]
ترجمہ: ’’بربادی ہے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے! جو جب دوسروں سے ماپ کر لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں، اور جب خود ماپ کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔‘‘
❀ ④ قیمتیں ناجائز طور پر بڑھانا
مصنوعات کو مہنگا کر کے بیچنا جبکہ خود اس قیمت پر خریدنا پسند نہ کیا جائے، ایمان کے خلاف عمل ہے۔
جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
( لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ ) [بخاری: ۱۳، مسلم: ۴۵]
ترجمہ: ’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔‘‘
❀ ⑤ مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا
بعض لوگ بائع کی تنگ دستی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، سامان کو بہت کم قیمت میں خرید لیتے ہیں۔ یہ اخوت و خیر خواہی کے برخلاف ہے۔ مسلمان کا فریضہ یہ ہے کہ بھائی کی مدد کرے، نہ کہ اس کی مجبوری سے اس کا استحصال۔
❀ ⑥ ذخیرہ اندوزی
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( لَا یَحْتَکِرُ إِلَّا خَاطِیٌٔ ) [مسلم: ۱۶۰۵]
ترجمہ: ’’ذخیرہ اندوزی گناہ گار کے سوا کوئی نہیں کرتا۔‘‘
یعنی ضرورت کی اشیاء روک کر لوگوں کو تنگی میں مبتلا کرنا حرام ہے۔
❀ ⑦ جھوٹی بولی (بیع نجش)
کسی چیز کی قیمت مصنوعی طور پر بڑھانے کے لیے اپنے ایجنٹوں سے جھوٹی بولی لگوانا تاکہ خریدار دھوکے میں آ جائے، حرام ہے، کیونکہ اس میں خریدار کا نقصان شامل ہے۔
❀ ⑧ مزدوروں کو اجرت سے محروم رکھنا
نبی کریم ﷺ نے حکم دیا:
( أَعْطُوا الْأجِیْرَ أَجْرَہُ قَبْلَ أَن یَّجِفَّ عَرَقُہُ ) [ابن ماجہ: ۲۴۴۳]
ترجمہ: ’’مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اسے مزدوری دے دو۔‘‘
اجرت نہ دینا یا تاخیر کرنا مزدور پر ظلم اور ضرر ہے۔
❀ ⑨ قرض واپس نہ کرنا
مالدار شخص کا بلا وجہ قرض واپس نہ کرنا ظلم ہے۔
( مَطْلُ الْغَنِیِّ ظُلْمٌ ) [بخاری: ۲۴۰۰، مسلم: ۱۵۶۴]
ترجمہ: ’’مالدار کا قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرنا ظلم ہے۔‘‘
❀ ⑩ کاتب و گواہ کو ضرر پہنچانا
قرآن کریم کا واضح حکم ہے:
﴿ وَلَا یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّلَا شَہِیْدٌ وَإِن تَفْعَلُوْا فَإِنَّهُ فُسُوْقٌ بِکُمْ﴾ [البقرۃ: ۲۸۲]
ترجمہ: ’’نہ کاتب کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو؛ اور اگر تم ایسا کرو گے تو یہ تمہارا گناہ ہے۔‘‘
لہٰذا گواہی میں دباؤ ڈالنا یا کاتب کو معاوضہ نہ دینا حرام ہے۔
اِن سب مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ لین دین میں کسی قسم کا دھوکہ یا زیادتی ’’ضرر‘‘ کے دائرے میں آتی ہے، جسے شریعت نے سختی سے ممنوع قرار دیا ہے۔ تجارت میں امانت، انصاف اور نرمی ہی اسلامی اخلاق کا تقاضا ہے۔
خاوند اور بیوی کے درمیان ضرر رسانی
اسلام نے میاں بیوی کے تعلقات کو سکون، محبت اور رحمت پر قائم کیا ہے۔ قرآن کریم نے فرمایا:
﴿وَمِنْ اٰیٰتِہٖ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً﴾ [الروم: ۲۱]
ترجمہ: ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون پاؤ، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔‘‘
پس اگر اس رشتے میں ضرر، ظلم یا زیادتی شامل ہو جائے تو وہ اس مقصدِ نکاح کے منافی ہو جاتا ہے۔ شریعت نے دونوں فریقوں—خاوند اور بیوی—کے لیے حدود مقرر کر کے ایک دوسرے کو ضرر پہنچانے سے روکا ہے۔
❀ خاوند کی جانب سے بیوی کو ضرر پہنچانے کی صورتیں
① بیوی سے حسنِ سلوک میں کمی یا بدسلوکی
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْـًٔا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا﴾ [النساء: ۱۹]
ترجمہ: ’’اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو، اگر وہ تمہیں ناپسند بھی ہوں تو ہو سکتا ہے اللہ نے اسی میں تمہارے لیے بہت بھلائی رکھی ہو۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
( اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَاءِ خَیْرًا ) [مسلم: ۱۴۶۸]
ترجمہ: ’’عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔‘‘
بدزبانی، بے احترامی یا جسمانی اذیت سب ضرر کے زمرے میں آتی ہیں، جو شریعت میں سختی سے ممنوع ہیں۔
② بیوی کو نہ رکھنا نہ چھوڑنا
بعض مرد بیوی کو نہ گھر میں بساتے ہیں نہ اسے طلاق دیتے ہیں، جس سے عورت ’’معلّقہ‘‘ بن کر رہ جاتی ہے۔ قرآن نے اس طرزِ عمل کو ظلم قرار دیا ہے:
﴿وَلَا تُمْسِکُوہُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ﴾ [البقرۃ: ۲۳۱]
ترجمہ: ’’انہیں نقصان پہنچانے کے لیے مت روکو تاکہ زیادتی کر سکو، اور جو ایسا کرے وہ اپنے اوپر ظلم کرتا ہے۔‘‘
③ قسم کے ذریعے ضرر
جو شوہر اپنی بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کھالے (ایلا)، اسے چار ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔ اگر اس مدت کے بعد بھی وہ رجوع نہ کرے تو یہ عورت پر ظلم اور ضرر ہے، جس سے قرآن نے منع فرمایا۔
④ دور رہنے میں زیادتی
اگر شوہر کسی مجبوری سے باہر ملک یا شہر میں کام کرتا ہو، تو استطاعت کے باوجود طویل مدت تک بیوی سے دور رہنا بیوی کے حقوق کی پامالی اور ضرر رسانی ہے۔ اسلام نے ازدواجی حقوق کے تقاضے پورے کرنے کا حکم دیا ہے۔
⑤ نان و نفقہ میں کوتاہی
بیوی کا کھانا، کپڑا، رہائش اور ضروریاتِ زندگی خاوند کے ذمے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
( وَلَہُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ) [مسلم: ۱۲۱۸]
ترجمہ: ’’تم پر ان (بیویوں) کے لیے معروف طریقے سے نفقہ اور لباس واجب ہے۔‘‘
جو شخص استطاعت کے باوجود خرچ نہ کرے، وہ بیوی کو ضرر پہنچانے والا ہے۔
❀ بیوی کی جانب سے خاوند کو ضرر پہنچانے کی صورتیں
اسلام نے عورت کو شوہر کے احترام، اطاعت اور خیر خواہی کا حکم دیا ہے۔ اگر بیوی ان حدود کو توڑ دے، تو وہ بھی ضرر رسانی کی مرتکب ہوتی ہے۔
بیوی کے ضرر کی چند مثالیں:
① شوہر کے ساتھ بدکلامی، گستاخی یا تلخ رویہ۔
② خدمت یا ازدواجی حقوق میں غفلت۔
③ ناجائز خرچ یا غیر ضروری مطالبات سے شوہر کو مالی و ذہنی اذیت دینا۔
④ شوہر کے مال کو اس کی اجازت کے بغیر ضائع کرنا۔
⑤ بغیر شرعی عذر کے شوہر کی بات نہ ماننا۔
یہ تمام طرزِ عمل شریعت میں ناجائز ہیں اور ازدواجی تعلق کو فساد میں بدل دیتے ہیں۔
❀ ازدواجی ضرر کا نتیجہ
ایسا ضرر نہ صرف گھریلو ناچاقی کا باعث بنتا ہے بلکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں حساب طلبی کا موجب بھی ہے۔ جو مرد یا عورت دوسرے فریق کو اذیت میں ڈالے، وہ دراصل اللہ کی حدود کو توڑتا ہے۔
قرآن نے فرمایا:
﴿تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ﴾ [الطلاق: ۱]
ترجمہ: ’’یہ اللہ کی حدیں ہیں، اور جو ان سے تجاوز کرے، وہ اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔‘‘
وصیت میں ضرر رسانی
اسلام نے وراثت اور وصیت کے احکام نہایت عدل و حکمت کے ساتھ مقرر کیے ہیں تاکہ مرنے والے کے بعد کسی وارث پر ظلم یا ضرر نہ ہو۔ مگر افسوس، بعض لوگ وصیت کے وقت ناانصافی اور زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں اور یوں اپنے مرنے کے بعد بھی دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
❀ ① وارث کے حق میں وصیت کرنا
اللہ تعالیٰ نے وارثوں کے حصے قرآن میں مقرر کر دیے ہیں۔ لہٰذا کسی وارث کے حق میں وصیت کرنا ناجائز اور ظلم ہے کیونکہ اس سے دوسرے ورثاء کا حق مارا جاتا ہے۔
رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
( إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَعْطَی کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہُ فَلَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ ) [ابو داؤد: ۲۸۷۲، النسائی: ۳۶۴۱۔ وصححہ الألبانی]
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق مقرر کر دیا ہے، لہٰذا وارث کے حق میں وصیت نہیں۔‘‘
یہ وصیت کرنا گویا اللہ کی تقسیم پر اعتراض ہے اور وارثوں میں ضرر و بغض کا سبب بنتی ہے۔
❀ ② ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنا
نبی کریم ﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو فرمایا:
( اَلثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِیْرٌ ) [بخاری: ۲۷۴۲، مسلم: ۱۶۲۸]
ترجمہ: ’’(وصیت) ایک تہائی کرو، اور ایک تہائی بھی بہت ہے۔‘‘
لہٰذا ایک تہائی سے زیادہ وصیت ناجائز ہے، کیونکہ اس سے ورثاء کے حقوق میں کمی واقع ہوتی ہے۔
❀ ③ وصیت میں ظلم یا کسی کا حق مارنا
کچھ لوگ وصیت کے ذریعے بعض وارثوں کو زیادہ اور بعض کو کم دیتے ہیں، یا کچھ کو محروم کرتے ہیں، یا محض عداوت یا حسد کی بنیاد پر ناانصافی کرتے ہیں۔ یہ سب ضرر کی صورتیں ہیں جن سے قرآن نے منع فرمایا ہے:
﴿مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰی بِھَآ اَوْ دَیْنٍ غَیْرَ مُضَارٍّ ﴾ [النساء: ۱۲]
ترجمہ: ’’یہ تقسیم وصیت اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگی، بشرطیکہ وصیت ایسی نہ ہو جس سے کسی کو نقصان پہنچے۔‘‘
یعنی وصیت میں ضرر رسانی حرام ہے، اور ایسا کرنے والا اللہ کے نزدیک سخت گناہگار ہے۔
❀ وصیت میں ضرر رسانی کا انجام
جو شخص وصیت میں کسی وارث کو نقصان پہنچاتا ہے، وہ دراصل اپنی نیکیوں کو برباد کر دیتا ہے۔ مفسرین نے فرمایا کہ ایسی ظالمانہ وصیت انسان کے اعمال کو ضائع کر دیتی ہے کیونکہ وہ دنیا سے جاتے ہوئے اللہ کے مقرر کردہ عدل کے نظام کو توڑتا ہے۔
یہ نہ صرف ورثاء میں بغض و فساد کا سبب بنتا ہے بلکہ میت کے لیے آخرت میں پکڑ کا ذریعہ بھی۔ اس لیے وصیت ہمیشہ انصاف، خیر خواہی اور عدل کے اصول پر ہونی چاہیے تاکہ کسی پر ضرر نہ آئے۔
پڑوسیوں کو ضرر پہنچانا
اسلامی معاشرت کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور خیر خواہی کی جائے، ان کے حقوق کا خیال رکھا جائے، اور کسی بھی صورت میں انھیں ایذا یا ضرر نہ پہنچایا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسی کے حق کو اتنی اہمیت دی کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گمان ہوا کہ شاید پڑوسی کو وراثت میں بھی شریک کر دیا جائے گا۔
❀ ① پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ ) [البخاری: ۶۰۱۸، مسلم: ۴۷]
ترجمہ: ’’جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ خیر کی بات کرے یا خاموش رہے، اور جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔‘‘
بعض روایات میں الفاظ ہیں:
( فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ ) [البخاری: ۶۴۷۵]
ترجمہ: ’’تو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔‘‘
❀ ② پڑوسی کو ضرر پہنچانا ایمان کے خلاف ہے
رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
( وَاللّٰہِ لَا يُؤْمِنُ، وَاللّٰہِ لَا يُؤْمِنُ، وَاللّٰہِ لَا يُؤْمِنُ )
پوچھا گیا: یا رسول اللہ! کون؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
( الَّذِي لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ ) [البخاری: ۶۰۱۶]
ترجمہ: ’’وہ شخص مومن نہیں جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔‘‘
یعنی جو شخص اپنے پڑوسی کو اذیت دے، اس کا ایمان کامل نہیں رہتا، چاہے وہ بظاہر عبادت گزار ہی کیوں نہ ہو۔
❀ ③ عبادت کے باوجود ضرر کا انجام
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ سے ایک عورت کے بارے میں ذکر کیا گیا جو راتوں کو قیام کرتی، دن کو روزہ رکھتی، صدقہ خیرات بھی کرتی تھی، مگر اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی تھی۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
"هِيَ فِي النَّارِ”
ترجمہ: ’’وہ جہنم میں ہے۔‘‘
پھر ایک دوسری عورت کا ذکر کیا گیا جو صرف فرض نمازیں پڑھتی، رمضان کے روزے رکھتی اور معمولی صدقہ دیتی، مگر کسی کو ایذا نہیں پہنچاتی۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
"هِيَ فِي الْجَنَّةِ”
ترجمہ: ’’وہ جنت میں ہے۔‘‘
[مسند احمد: ج ۲ ص ۴۴۰، حاکم: ۴/۱۶۶]
یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ عبادتیں اس وقت تک مقبول نہیں ہوتیں جب تک انسان دوسروں، خصوصاً اپنے پڑوسیوں کو ضرر نہ پہنچائے۔
❀ ④ پڑوسی کے حق میں آسانی اور تعاون
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
( لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدُكُمْ جَارَهُ أَنْ يَغْرِزَ خَشَبَةً عَلَى جِدَارِهِ ) [البخاری: ۲۴۶۳، مسلم: ۱۶۰۹]
ترجمہ: ’’تم میں سے کوئی اپنے پڑوسی کو منع نہ کرے کہ وہ اس کی دیوار میں اپنی لکڑی گاڑ لے۔‘‘
یہ تعلیم دراصل معاشرتی رواداری اور ایثار کا مظہر ہے کہ پڑوسی ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کریں، نہ کہ رکاوٹیں۔
❀ ⑤ ایذا رسانی کی حرمت اور اس کا اثر
پڑوسی کو ضرر پہنچانا عام انسان کو ضرر پہنچانے سے کہیں زیادہ بڑا گناہ ہے کیونکہ اس کا تعلق روزمرہ زندگی اور تعامل سے ہے۔ جو شخص اپنے قریب رہنے والے کو تکلیف دے، وہ دراصل ایمان و انسانیت دونوں سے خالی ہے۔
خلاصہ:
پڑوسیوں کو ضرر پہنچانا، ان کے حقوق پامال کرنا، یا کسی بھی طرح ان کی زندگی میں خلل ڈالنا اسلام میں سختی سے ممنوع ہے۔ اچھا پڑوسی بننا ایمان کا حصہ ہے، اور جو پڑوسی کو ایذا دے، وہ رسولِ اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق جنت سے محروم رہنے کا خطرہ مول لیتا ہے۔
عام مسلمانوں کو ضرر پہنچانا
اسلامی معاشرت میں ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے امن و راحت کا ذریعہ ہوتا ہے، نہ کہ تکلیف یا ضرر کا۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ ) [بخاری: ۱۰، مسلم: ۴۱]
ترجمہ: ’’سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
اس جامع اصول کے تحت ہر وہ عمل جس سے کسی مسلمان کو جسمانی، مالی یا نفسیاتی تکلیف پہنچے، شریعت میں ’’ضرر‘‘ کے زمرے میں آتا ہے اور ممنوع ہے۔ ذیل میں چند نمایاں صورتیں ذکر کی جاتی ہیں جو معاشرے میں عام پائی جاتی ہیں۔
❀ ① راستوں میں اذیت دینا
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
( إِیَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ فِی الطُّرُقَاتِ )
’’راستوں پر بیٹھنے سے بچو۔‘‘
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمیں تو اپنی مجلسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
( إِذَا أَبَیْتُمْ إِلَّا الْمَجَالِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِیقَ حَقَّهُ )
’’اگر تمہیں بیٹھنا ہی ہے تو راستے کا حق ادا کرو۔‘‘
پوچھا گیا: راستے کا حق کیا ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
( غَضُّ الْبَصَرِ، وَکَفُّ الْأَذَى، وَرَدُّ السَّلَامِ، وَالأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ ) [بخاری: ۶۲۲۹، مسلم: ۲۱۲۱]
ترجمہ: ’’نظروں کو جھکانا، کسی کو ایذا نہ دینا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ راستے پر بیٹھنے والے کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کے لیے امن کا ذریعہ بنے، نہ کہ ضرر کا سبب۔
❀ ② راستوں یا سایہ دار جگہوں پر قضائے حاجت کرنا
نبی ﷺ نے فرمایا:
( اِتَّقُوا اللَّعَّانَیْنِ )
’’ان دو کاموں سے بچو جو لوگوں کی لعنت کا باعث بنتے ہیں۔‘‘
صحابہ نے پوچھا: وہ دو کام کیا ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
( اَلَّذِیْ یَتَخَلّٰی فِی طَرِیْقِ النَّاسِ أَوْ فِی ظِلِّهِمْ ) [مسلم: ۲۶۹]
ترجمہ: ’’لوگوں کے راستے میں یا ان کی سایہ دار جگہ میں قضائے حاجت کرنا۔‘‘
یہ عمل دوسروں کے لیے بدبو، نجاست اور تکلیف کا ذریعہ بنتا ہے، لہٰذا یہ ’’ضرر‘‘ ہے اور اس سے اجتناب لازم ہے۔
❀ ③ سرکاری یا عوامی خدمات میں تاخیر و تکلیف
کچھ لوگ دفاتر، سرکاری اداروں یا عوامی محکموں میں کام کرنے کے باوجود لوگوں کے کاموں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ وہ آسان کام کو بھی جان بوجھ کر مشکل بناتے، فائلوں کو روک کر رکھتے یا ذاتی مفاد کے بغیر آگے نہیں بڑھاتے۔
ایسے لوگ براہِ راست مسلمانوں کو ضرر پہنچاتے ہیں اور ان کی دعاؤں، بددعاؤں اور مظلومیت کا نشانہ بنتے ہیں۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
( اتَّقُوا دَعْوَۃَ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّهُ لَیْسَ بَیْنَهَا وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَابٌ ) [بخاری: ۲۴۴۸، مسلم: ۱۹]
ترجمہ: ’’مظلوم کی دعا سے بچو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔‘‘
❀ ④ عام گزرگاہوں کو گندہ کرنا یا بند کرنا
بازاروں، گلیوں یا مساجد کے راستوں میں کوڑا کرکٹ پھینکنا، گاڑی پارک کر کے راستہ بند کر دینا، یا کسی کے چلنے کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرنا سب ’’اذیّت‘‘ کی اقسام ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
( إِزَالَۃُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِیقِ صَدَقَةٌ ) [بخاری: ۲۸۲۷، مسلم: ۱۰۰۹]
ترجمہ: ’’راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا صدقہ ہے۔‘‘
یعنی راستے کو صاف رکھنا نیکی اور اجر کا کام ہے، جبکہ اسے گندا کرنا گناہ اور ضرر ہے۔
❀ ⑤ افواہیں اور جھوٹی باتیں پھیلانا
زبان کے ذریعے ضرر دینا ہاتھ سے ضرر دینے سے کم نہیں۔ کسی کی عزت، ساکھ یا اعتماد کو نقصان پہنچانے کے لیے جھوٹ، بہتان یا غیبت کرنا بدترین اذیت ہے۔
قرآن کہتا ہے:
﴿وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ﴾ [الحجرات: ۱۲]
ترجمہ: ’’ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو؛ کیا تم پسند کرو گے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاؤ؟ تم اسے ناپسند کرتے ہو۔‘‘
❀ نتیجہ
مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسروں کے لیے امن، سکون اور راحت کا سبب بنے۔ جو مسلمان اپنی زبان، ہاتھ یا عمل سے دوسروں کو ضرر پہنچاتا ہے، وہ حدیث (لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ) کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اپنے ایمان کے کمال سے محروم رہتا ہے۔
سگریٹ نوشی: خود اور دوسروں کو ضرر پہنچانے کی مثال
اسلام میں ہر وہ عمل ممنوع ہے جو انسان کے لیے ضرر یا ہلاکت کا سبب بنے۔ حدیث (لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ) کا یہ قاعدہ عام ہے — یعنی کوئی بھی چیز جو انسان کے جسم، مال یا روح کے لیے نقصان دہ ہو، وہ شریعت کی نظر میں حرام یا کم از کم ناپسندیدہ ضرور ہے۔
اسی اصول کی روشنی میں سگریٹ نوشی ایک واضح حرام اور مضر عمل ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف انسان خود کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اذیت دیتا ہے۔
❀ ① قرآنِ کریم سے دلائل
1️⃣ خبیث چیزوں کی حرمت
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَائِثَ﴾ [الأعراف: ۱۵۷]
ترجمہ: ’’وہ (نبی ﷺ) ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور گندی چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں۔‘‘
سگریٹ ایک گندی، بدبو دار اور نقصان دہ چیز ہے، لہٰذا یہ ’’خبیث‘‘ کے زمرے میں آتی ہے اور اس کا استعمال ناجائز ہے۔
2️⃣ خود کو ہلاکت میں ڈالنے کی ممانعت
﴿وَلَا تُلْقُوا بِأَیْدِیْكُمْ إِلَی التَّهْلُكَةِ﴾ [البقرۃ: ۱۹۵]
ترجمہ: ’’اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘
سگریٹ تمباکو، نکوٹین اور زہریلے دھوئیں کے ذریعے انسان کو سرطان (کینسر)، دل کے امراض اور پھیپھڑوں کی تباہی تک پہنچا دیتی ہے، جو صریح ہلاکت ہے۔
3️⃣ خودکشی کی حرمت
﴿وَلَا تَقْتُلُوْا أَنْفُسَكُمْ﴾ [النساء: ۲۹]
ترجمہ: ’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔‘‘
سگریٹ نوشی رفتہ رفتہ خودکشی کے مترادف ہے کیونکہ انسان جان بوجھ کر اپنے جسم کو زہر آلود کرتا ہے۔
4️⃣ فضول خرچی کی حرمت
﴿وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْا إِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ﴾ [الإسراء: ۲۶–۲۷]
ترجمہ: ’’فضول خرچی نہ کرو، کیونکہ فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں۔‘‘
سگریٹ نوشی میں روزانہ مال جلایا جاتا ہے؛ یہ مالی بربادی بھی ہے اور شیطانی عمل بھی۔
❀ ② احادیثِ نبویہ سے دلائل
1️⃣ مال ضائع کرنے کی ممانعت
نبی ﷺ نے فرمایا:
( إِنَّ اللّٰہَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا: قِیلَ وَقَالَ، وَإِضَاعَةَ الْمَالِ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ ) [بخاری و مسلم]
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تین چیزیں ناپسند فرمائی ہیں: فضول گفتگو، مال کا ضیاع، اور زیادہ سوال کرنا۔‘‘
سگریٹ نوشی میں مال ضائع ہوتا ہے جس سے نہ دنیا کا فائدہ ہوتا ہے نہ آخرت کا۔
2️⃣ کھلے عام گناہ کرنے والوں کی وعید
( كُلُّ أُمَّتِیْ مُعَافًی إِلَّا الْمُجَاهِرِیْنَ ) [بخاری و مسلم]
ترجمہ: ’’میری امت کے تمام لوگ معاف کیے جائیں گے سوائے ان کے جو کھلم کھلا گناہ کرتے ہیں۔‘‘
سگریٹ نوشی کرنے والا شخص سب کے سامنے گناہ کرتا ہے، اللہ سے شرم نہیں کرتا اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتا ہے۔
3️⃣ بدبو دار چیز کے ساتھ مسجد میں آنے کی ممانعت
( مَنْ أَكَلَ ثَوْمًا أَوْ بَصَلًا فَلْیَعْتَزِلْنَا وَلْیَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا ) [بخاری و مسلم]
ترجمہ: ’’جو شخص لہسن یا پیاز کھائے، وہ ہمارے قریب نہ آئے اور مسجد سے دور رہے۔‘‘
جبکہ سگریٹ کی بدبو لہسن اور پیاز سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے؛ اس لیے نمازیوں کو اذیت دینا حرام ہے۔
4️⃣ نشہ آور اشیاء کی حرمت
( مَا أَسْكَرَ كَثِیْرُهُ فَقَلِیْلُهُ حَرَامٌ ) [احمد، صحیح الاسناد]
ترجمہ: ’’جو چیز زیادہ مقدار میں نشہ آور ہو، اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔‘‘
سگریٹ میں موجود نکوٹین ایک نشہ آور مادہ ہے؛ اسی لیے انسان اس کا عادی ہو جاتا ہے۔
❀ ③ عقل و تجربے کی روشنی میں
1️⃣ اگر کوئی شخص آپ کے چہرے پر دھواں پھونکے تو آپ اسے بے ادبی یا اذیت سمجھیں گے — پھر سگریٹ نوشی کر کے دوسروں کے منہ میں زہریلا دھواں چھوڑنا کس طرح درست ہو سکتا ہے؟
2️⃣ اگر کوئی ایک روپیہ جلا دے تو آپ اسے پاگل سمجھیں گے؛ تو جو شخص ہزاروں روپے سگریٹ پر جلا دیتا ہے، وہ عقل مند کیسے کہلا سکتا ہے؟
❀ ④ سگریٹ نوشی سے کئی طبّی و روحانی نقصانات
پھیپھڑوں، دل، دانتوں، اور نظامِ تنفس کو نقصان۔
گھر کے بچوں، عورتوں اور بزرگوں پر ’’دوسرے درجے کا دھواں‘‘ اثر انداز ہوتا ہے۔
فرشتوں کو اذیت؛ جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
( إِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَتَأَذَّی مِمَّا یَتَأَذَّی مِنْهُ بَنُو آدَمَ ) [مسلم: ۵۶۴]
ترجمہ: ’’فرشتے بھی ان چیزوں سے اذیت محسوس کرتے ہیں جن سے آدمی اذیت پاتا ہے۔‘‘
❀ خلاصہ
سگریٹ نوشی نفس کو ضرر پہنچاتی ہے، دوسروں کو اذیت دیتی ہے، مال کو برباد کرتی ہے، اور ایمان و تقویٰ کے منافی عمل ہے۔
یہ قرآن و سنت دونوں کے دلائل سے حرام ہے۔
جو شخص اس عادت میں مبتلا ہے، اس پر لازم ہے کہ توبہ کرے، علاج کرے، اور اس ضرر سے خود اور دوسروں کو محفوظ رکھے۔
حاصلِ کلام
یہ پورا مضمون حدیثِ نبوی (لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ) کے وسیع و ہمہ گیر مفہوم پر مشتمل ہے۔ اس حدیث میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاشرت کے ہر پہلو کے لیے ایک جامع اصول بیان فرمایا ہے، جس کی بنیاد انصاف، خیر خواہی اور باہمی ہمدردی پر ہے۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس قاعدے کے تحت:
① کسی انسان کے لیے خود کو نقصان پہنچانا جائز نہیں۔
② کسی دوسرے انسان کو قصداً یا بلا قصد ضرر پہنچانا حرام ہے۔
③ بدلہ لیتے ہوئے بھی زیادتی نہیں کی جا سکتی۔
④ اسلام نے ہر اس عمل سے روکا ہے جس سے دوسروں کی جان، مال، عزت، وقت یا سکون متاثر ہو۔
اسی قاعدے کے عملی نمونے ہم نے مختلف موضوعات میں دیکھے:
لین دین میں ضرر: دھوکہ دہی، ملاوٹ، ماپ تول میں کمی، ذخیرہ اندوزی، مزدور کی اجرت روکنا، قرض کی ادائیگی میں تاخیر — سب ممنوع۔
ازدواجی زندگی میں ضرر: بیوی کے حقوق تلف کرنا، نفقہ روکنا، بلا وجہ الگ رکھنا، یا عورت کا شوہر کی نافرمانی کرنا — یہ سب ظلم و ضرر کے مظاہر۔
وصیت میں ضرر: وارث کو زیادہ یا کم دینا، ایک تہائی سے زائد وصیت کرنا یا کسی وارث کو محروم کرنا — ناجائز۔
پڑوسیوں کو ضرر: ان کو تکلیف دینا، بدزبانی، شور شرابہ یا ان کے حق میں تنگی پیدا کرنا — ایمان کے منافی۔
عام مسلمانوں کو ضرر: راستے میں رکاوٹیں، گندگی، افواہیں، تاخیر یا ناانصافی — سب حرام۔
سگریٹ نوشی: خود اپنے جسم کو ہلاک کرنا، دوسروں کو اذیت دینا اور مال ضائع کرنا — قرآن و سنت کے مطابق حرام۔
اسلام کا یہ اصول صرف فرد تک محدود نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے عدل و رحمت کی ضمانت ہے۔ جب مسلمان اس قاعدے پر عمل کریں گے تو معاشرہ ظلم و فساد سے پاک، محبت و انصاف سے لبریز ہو جائے گا۔
نتیجہ
❀ حدیث "لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ” شریعتِ اسلامیہ کا ایک عظیم ضابطہ ہے۔
یہ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ:
ہر حالت میں ضرر سے بچنا فرض ہے۔
کسی پر ظلم یا زیادتی نہ کی جائے۔
اپنے مفاد کے لیے دوسرے کا نقصان نہ کیا جائے۔
انصاف، نرمی، رحم دلی اور خیر خواہی کو زندگی کا شعار بنایا جائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس حدیث کے تقاضوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،
ہمیں دوسروں کے لیے امن و راحت کا ذریعہ بنائے،
اور ہر قسم کے ضرر، ظلم اور زیادتی سے محفوظ رکھے۔
آمین یا رب العالمین۔