لاپتہ شوہر کی بیوی کا نکاحِ ثانی اور عدت کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج1 ص757

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہندہ کی شادی زید کے ساتھ سات سال پہلے ہوئی۔ زید تقریباً چھ سال سے لاپتہ ہے، نہ اس نے خرچ بھیجا اور نہ ہی اس کا کوئی پتہ معلوم ہوا۔ تو کیا ہندہ اب سات سال بعد کسی اور جگہ نکاح کرسکتی ہے؟ اگر نکاح کرسکتی ہے تو نکاح سے پہلے کتنی عدت گزارنی ہوگی؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر سوال درست ہے اور شوہر واقعی سات سال سے لاپتہ ہے اور اس کی زندگی یا موت کے بارے میں ورثاء اور اقرباء کو کچھ علم نہیں، تو ایسی صورت میں عورت ناامیدی کے بعد دوسرا نکاح کرنے کی شرعاً مجاز اور مختار ہے۔

یہی قول اور فتویٰ حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت ابن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور تابعین کی ایک بڑی جماعت کا ہے۔

موطا امام مالک کی روایت

عن سعید بن المسیب ان عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنه قال أیما إمراة فقدت زوجھا فلم تدر این ھو فإنھا تنتظر اربع سنین ثم اربعة اشھر وعشرا ثم تحل.
(موطا، باب عدة التی تفتقد زوجھا، وسبل السلام ج3 ص207، 208، ونیل الاوطار)

سعید بن مسیب تابعی روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا:

"جو عورت اپنے شوہر کو گم کر دے اور اس کا کوئی پتہ نہ ملے تو وہ چار سال تک انتظار کرے، پھر چار ماہ دس دن عدتِ وفات گزارے، اس کے بعد نکاح کرسکتی ہے۔”

حدیث کا حکم

اگرچہ یہ روایت بظاہر موقوف ہے لیکن حکماً مرفوع ہے، کیونکہ تحدیدات اور مقدرات میں جہاں قیاس اور اجتہاد کی گنجائش نہ ہو، وہاں موقوف حدیث مرفوع کے حکم میں ہوتی ہے۔

اقوالِ ائمہ و تابعین

فتح الباری (ج9، ص355) میں ہے کہ امام زہری کا مذہب یہ ہے کہ عورت چار سال انتظار کرے۔
✿ امام عبدالرزاق اور امام سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ نے یہی فیصلہ کیا تھا۔
سنن سعید بن منصور کی روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے بھی یہی منقول ہے۔
✿ تابعین کی جماعت مثلاً امام ابراہیم نخعی، امام عطاء، امام زہری، امام مکحول اور امام عامر شعبیؒ بھی اسی کے قائل ہیں۔

چار سال کی مدت کا آغاز

یہ چار سال اس دن سے شمار ہوں گے جس دن عورت نے مقدمہ پیش کیا اور حاکم نے فیصلہ کیا کہ چار سال کے بعد عدتِ وفات گزارے۔

مزید وضاحت

سبل السلام (ج3 ص208) میں ہے کہ ابو الزناد کہتے ہیں:

"میں نے امام سعید بن مسيب سے اس شوہر کے بارے میں پوچھا جو بیوی کا خرچ برداشت نہیں کرسکتا۔ تو انہوں نے فرمایا: ان دونوں میں تفریق کرا دی جائے۔ میں نے پوچھا: کیا یہ سنت ہے؟ فرمایا: ہاں، یہ سنت ہے۔”

امام شافعی کہتے ہیں کہ سعید بن مسيب کا یہ ارشاد سنت رسول ﷺ ہے۔

اس سے ثابت ہوا کہ اگر شوہر خرچ مہیا نہ کرسکے تو تفریق کرادینا سنت ہے۔ جب محض نان و نفقہ نہ دے سکنے پر تفریق سنت ہے تو پھر مفقود شوہر کی بیوی تفریق کی اس سے بھی زیادہ مستحق ہے، کیونکہ اس کی تکلیف نادار شوہر کی بیوی سے زیادہ ہے۔

خلاصہ

◈ صحابہ کرامؓ کے فیصلوں، تابعین کے فتاویٰ اور ائمہ کرام کی آراء کی روشنی میں ایسی عورت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی بلاشبہ حقدار ہے۔
◈ اس حق کو اس سے چھیننا یا کسی قانونی بنیاد پر مزید آزمائش میں ڈالنا درست نہیں، خاص طور پر جبکہ وہ سات سال سے صبر اور تکلیف برداشت کر رہی ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے