لاپتہ شوہر کی بیوی کا شرعی حکم اور نکاح کا اختیار
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 757

سوال

میری بیٹی کا شوہر دس بارہ سال سے لاپتہ ہے، معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہے یا فوت ہو چکا ہے۔ بہت تلاش کے باوجود بھی کوئی خبر نہیں ملی۔ اس صورت میں میری بیٹی کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسؤلہ میں، مذکورہ خاتون اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کی حقدار ہے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فیصلہ

✿ جیسا کہ موطا اور سبل السلام شرح بلوغ المرام میں بیان ہے:
حضرت عمر فاروق ﷜ نے فرمایا:

"جس عورت کا شوہر گم ہوجائے اور چار برس تک اس کا کوئی پتہ نہ چلے کہ زندہ ہے یا فوت ہو چکا ہے، تو چار برس گزرنے پر عورت چار ماہ اور دس دن وفات کی عدت میں بیٹھے۔
عدت وفات پوری ہونے کے بعد، وہ اپنے ولی کی اجازت سے جہاں چاہے شرعی نکاح کر سکتی ہے۔”

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور سعید بن مسیب تابعی کی رائے

صحیح بخاری کے ترجمہ کے مطابق:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور تابعی حضرت سعید بن مسیب کے نزدیک، صرف ایک برس انتظار کافی ہے۔

(صحیح بخاری، جلد 2، صفحہ 797)

موجودہ حالات میں فقہی رائے

✿ احقر کی رائے میں:

  • آج کے دور میں چونکہ میڈیا، ابلاغی نظام اور اخباری سہولیات عام ہیں، اس لیے حضرت امام بخاری  کی رائے پر عمل کرنا شرعاً درست ہے۔
  • اس میں کوئی قباحت نہیں، کیونکہ اگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہ سہولیات موجود ہوتیں تو غالباً وہ بھی چار برس کے انتظار کو ضروری قرار نہ دیتے۔
  • لہٰذا، مفتی پر کسی قانونی سقم کی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے