لاپتہ شوہر، نان و نفقہ اور نکاحِ ثانی کا شرعی حکم و دلائل
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ ج1 ص759

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ آج سے چھتیس سا ل پہلے ایک عورت کا نکاح ایک شخص سے ہوا جو اب عرصہ تیرہ سے لاپتہ ہے۔ بہت تلاش کے باوجود نہیں مل سکا۔ نہ تو اس نے حقِ زوجیت ادا کیا اور نہ ہی نان و نفقہ کا کفیل ہوا ہے۔ اب اس کے بچے بڑے ہو گئے ہیں، خرچہ بڑھ گیا ہے اور گزر اوقات بڑی مشکل سے ہوتی ہے۔ بچوں کی تعلیم کا مسئلہ بھی الجھ گیا ہے۔ تو کیا یہ عورت اپنی گزر اوقات اور اپنے بچوں کی پرورش کے لیے نکاحِ ثانی کر سکتی ہے؟ کیا شرعِ محمدی اس کی اجازت دیتی ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرطِ صحتِ سوال اور تصدیقِ گواہانِ ثلاثہ واضح ہو کہ یہ عورت مجاز افسر یعنی جج فیملی کورٹ شہرِ ملتان سے اجازت حاصل کرکے، چار ماہ دس دن کی عدت گزار کر حسبِ منشا نکاحِ ثانی کر سکتی ہے۔ اور یہ نکاح دو طرح سے شریعتِ محمدی (علی صاحبها الصلوٰة والسلام) کے مطابق صحیح اور شرعی نکاح ہوگا۔

وجہ نمبر 1: شوہر کا طویل عرصہ سے مفقود الخبر ہونا

◈ حسبِ تحریر، خاوند عرصہ تیرہ سال سے مفقود الخبر (یعنی لاپتہ) ہے۔
◈ خاوند کے مفقود الخبر ہو جانے پر بیوی کو اس کا صرف چار سال تک انتظار کرنا ہوتا ہے۔
◈ اگر وہ اس مدت میں واپس آ جائے تو بہتر، ورنہ بیوی کو 4 ماہ 10 دن (بیوہ) کی عدت گزارنا پڑتی ہے، جیسا کہ سیدنا عمرِ فاروق ﷜ کا فیصلہ ہے:

عن مالک عن یحییٰ بن سعید بن المسیب ان عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنه قال ایما امراة فقدت زوجھا فلم تدر این ھو فانھا تنتظر اربع سنین ثم اربعة اشھر وعشرا ثم تحل. (موطا مام مالک باب عدةالتی تفقد زوجھا ص209)

◈ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس عورت کا خاوند لاپتہ ہو جائے اور معلوم نہ ہو کہ کہاں ہے، زندہ ہے یا فوت ہو چکا ہے، تو وہ عورت چار سال انتظار کرے۔ اگر اس دوران کچھ خبر نہ ملے تو 4 ماہ 10 دن کی عدتِ وفات گزار کر نکاح سے آزاد ہو جائے۔
◈ یعنی اب مفقود شوہر کو مردہ تصور کیا جائے گا، عدتِ وفات لازم ہوگی، اور بعد ازاں وہ نکاحِ ثانی کر سکتی ہے۔
حنفیہ نے ایسی بد نصیب عورت کے لیے انتظار کی مدت 90 سال اور پھر 4 ماہ 10 دن عدت مقرر کی ہے۔ فتاویٰ عالمگیری ص 300 ج 2 طوعی روڈ کوئٹہ

◈ ظاہر ہے، نوّے سال اور پھر چار ماہ دس دن کے بعد نہ وہ اس قابل رہتی ہے کہ اسے خاوند کی ضرورت ہو، نہ کوئی اس بوڑھی فرتوت عورت کو قبول کرے گا۔
◈ پس، حضرت عمرِ فاروق ﷜ کے اس صحیح اور محتاط فیصلے کے مقابلے میں حنفیہ کا فتویٰ نہ قابلِ اعتناء ہے نہ قابلِ التفات۔ اس لیے ہمارے نزدیک حضرت عمر ﷜ کا فیصلہ ہی قولِ فیصل ہے۔

وجہ نمبر 2: نان و نفقہ کی عدم ادائیگی

خاوند پر بیوی کا نان و نفقہ یعنی خوراک، لباس، رہائش اور علاج واجب ہے۔
◈ اگر خاوند عمداً کوتاہی کرے یا دینے سے قاصر ہو اور بیوی اس حالت میں اس کے ساتھ نباہ کرنے کو تیار نہ ہو تو بیوی کو عدالتِ مجاز سے اجازت لے کر نکاحِ ثانی کا حق حاصل ہوتا ہے۔

حدیثِ ابو ہریرہ ؓ

عن أَبی هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ مَا تَرَكَ غِنًى، وَاليَدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ» تَقُولُ المَرْأَةُ: إِمَّا أَنْ تُطْعِمَنِي، وَإِمَّا أَنْ تُطَلِّقَنِي، وَيَقُولُ العَبْدُ: أَطْعِمْنِي وَاسْتَعْمِلْنِي، وَيَقُولُ الِابْنُ: أَطْعِمْنِي، إِلَى مَنْ تَدَعُنِي "، فَقَالُوا: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: «لاَ، هَذَا مِنْ كِيسِ أَبِي هُرَيْرَةَ (صحیح بخاری باب وجوب النفقة علی الاھل والعیال ج2 ص 806)

◈ مفہوم یہ کہ افضل صدقہ وہ ہے جس کے بعد دینے والا خود محتاج نہ ہو، اور دینے والا ہاتھ لینے والے سے بہتر ہے، اور خرچ کی ابتدا زیرِ کفالت لوگوں سے ہونی چاہیے۔
◈ بیوی کا یہ کہنا کہ إِمَّا أَنْ تُطْعِمَنِي، وَإِمَّا أَنْ تُطَلِّقَنِي اسی اصول کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

حافظ ابن حجرؒ کی توضیح

واستدل بقوله أما أن تطعمنی واما أن تطعمنی من قال یفرق بین الرجل وإمراته إذاعسر بالنفقة واختارت فراقة وہوقول جمہور العلماء وقال الکوفیون یلزمھا الصبر وتتعلق النفقۃ بذمته واستدل الجمہور بقوله تعالی ولا تمسکو ھن ضرارا لتعتذوا. (فتح الباری :ص416)

◈ جمہور علماء نے اس سے استدلال کیا کہ جب خاوند نان و نفقہ دینے سے عاجز ہو اور بیوی جدائی چاہے تو تفریق کرا دی جائے۔

اثرِ سعید بن المسیبؒ

عن سعید بن یحی ٰ عن سعید بن المسیب رحمه اللہ فی الرجل لا یجد ما ینفق علی اھله قال یفرق بینھا. (سبل السلام ص 274 ج3، توضیح الاحکام ج5 ص146)

◈ جلیل القدر تابعی سعید بن المسیبؒ کے فتوے کے مطابق جو خاوند خرچہ نہ دے، ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دی جائے۔

حکمِ عمر فاروق ﷜ برائے غازیان

عن عمر رضی اللہ عنه إنه کتب إلی امراء الاجناد فی رجال غابوا عن نساء ھم أن یاخذوھم بأن ینفقوا أویطلقوا فإن طلقوا بعثوا ما جسوا. (سبل السلام ص 326 ج3، توضیح الاحکام ج5 ص146)

◈ حضرت عمر فاروق ﷜ نے فوجی کمانڈروں کو حکم دیا کہ جو اپنی بیویوں سے غیر حاضر رہتے ہیں، انہیں پابند کیا جائے کہ یا نان و نفقہ بھیجیں یا طلاق۔

الامیر الصنعانیؒ کی تحقیق

وأنه دلیل علی أن النفقة عندہ لا تسقط بالمطل فی حق الزوجة وعلی أنه یجب أحد الأمرین علی الأزواج الانفاق او الطلاق. (سبل السلام :ص 226 ح3)

◈ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت عمر فاروق ﷜ کے نزدیک تاخیر سے بھی نفقہ ساقط نہیں ہوتا، اور شوہروں پر یا نفقہ، یا طلاق لازم ہے۔

فیصلہ

◈ مذکورہ بالا احادیث، تصریحاتِ صحابہؓ، تشریحاتِ تابعین اور توقیعاتِ فقہاءِ ثلاثہ—الغرض جمہورِ علماء کی روشنی میں—بشرطِ صحتِ سوال اور بشرطِ صحتِ تصدیقِ گواہانِ ثلاثہ مسمات کنیز فاطمہ کو دو وجہوں سے نکاحِ ثانی کا حق پہنچتا ہے:

➊ اس کا خاوند عرصہ تیرہ سال سے مفقود ہے جبکہ شرعاً مدتِ انتظار چار سال ہے؛ اب نو سال سے زائد گزر چکے ہیں۔
عرصہ تیرہ سال سے نان و نفقہ ادا نہیں کیا جو کہ واجب تھا۔

◈ لہٰذا کنیز فاطمہ کو چاہیے کہ اس فتوے کی روشنی میں ملتان کی عائلی عدالت (جج فیملی کورٹ) سے باضابطہ اجازت حاصل کرے، پھر 4 ماہ 10 دن عدت گزار کر نکاحِ ثانی کرے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے