قیدی یا خریدی ہوئی لونڈی کا استبراء
تحریر: عمران ایوب لاہوری

قیدی یا خریدی ہوئی یا ان کی مثل (کسی اور ذریعہ سے حاصل کی ہوئی) لونڈی پر استبراء کے لیے ایک حیض مدت گزارنا لازم ہے اگر وہ حائضہ ہو اور اگر حاملہ ہو تو عدت وضع حمل ہے
لفظ استبراء باب إسْتَبْرَأَ يَسْتَبْرِءُ (استفعال) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ”براءت طلب کرنا“ ہے۔ اصطلاحی اعتبار سے ”رحم کی براءت کے لیے لونڈی کا ایک مدت تک (وضع حمل یا ایک حیض) انتظار کرنا“ استبراء کہلاتا ہے۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 2709/9 ، الشرح الصغير: 677/2]
➊ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اوطاس (حنین کے قریب ایک وادی کا نام ہے) کی قیدی عورتوں کے متعلق فرمایا:
لا تــوطـأ حامل حتى تضع ولا غير ذات حمل حتى تحيض حيضة
”حامله عورت سے وضع حمل تک ہم بستری نہ کی جائے اور غیر حاملہ سے ایک ماہواری گزرنے تک ہم بستری نہ کی جائے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 1889 ، كتاب النكاح: باب فى وطء السبايا ، ابو داود: 2157 ، أحمد: 28/3 ، حاكم: 195/2 ، امام حاكمؒ نے اس حديث كو مسلم كي شرط پر صحيح كها هے۔]
➋ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں میں سے حاملہ عورت کے ساتھ ہم بستری کا ارادہ رکھنے والے شخص پر ایسی لعنت کرنا چاہی جو اس کے ساتھ قبر میں بھی داخل ہو گی ۔
[مسلم: 1441 ، كتاب النكاح: باب تحريم وطء الحامل المبسية ، ابو داود: 2156 ، أحمد: 195/5]
➌ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
نهى أن توطأ السبايا حتى يضعن ما فى بطونهن
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدی عورتوں سے اس وقت تک ہم بستری کرنے سے منع فرمایا ہے جب تک وہ اپنے حمل نہ وضع کر دیں ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 1669 ، كتاب السير: باب ما جاء فى كراهية وطء الحبالي من السبايا ، ترمذى: 1564 ، أحمد: 167/4]
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ حاملہ لونڈیوں سے وضع حمل سے پہلے اور غیر حاملہ سے ایک حیض گزرنے سے پہلے ہم بستری حرام ہے۔
(شافعیہ ، حنفیہ ، ثوریؒ ، نحعیؒ ، مالکؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[تحفة الأحوذي: 171/5 ، الأم: 96/5 ، المبسوط: 152/12]
غالبا اس حرمت کا سبب وہ ہے جو حضرت رو یفع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں مذکور ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسقى ماءه زرع غيره
”اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے کسی شخص کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنا پانی (نطفہ) کسی اور کی کھیتی (یعنی حمل ) کو پلائے ۔“
[حسن: صحيح ابو داود: 1890 ، كتاب النكاح: باب وطء السبايا ، ابو داود: 2158 ، 2159 ، أحمد: 108/4 ، ترمذي: 1131 ، دارمي: 230/2 ، ابن حبان: 4850 ، بيهقي: 62/9]
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے روز فرمایا:
لا تسق ماء ك زرع غيرك
”اپنا پانی (یعنی نطفہ ) اپنے علاوہ کسی اور کے کھیت کو مت پلاؤ ۔“
[حاكم: 56/2 ، امام حاكمؒ اور امام ذهبيؒ نے اسے صحيح كها هے ۔]
معلوم ہوا کہ اس قسم کی لونڈیوں سے ہم بستری اس لیے منع ہے کہ (براءتِ رحم حاصل ہو جائے یعنی ) کسی اور کے حمل میں اپنا نطفہ نہ ملا دیا جائے۔ لٰہذا اگر بعد میں حمل ظاہر ہو گا تو وضع حمل کے بعد ہی ہم بستری درست ہو گی اور اگر حمل ظاہر نہیں ہو گا تو ایک حیض گزرنے سے معلوم ہو جائے گا کہ یہ عورت حاملہ نہیں ہے اور پھر اس سے ہم بستری درست ہو گی۔
یاد رہے کہ یہ علت جس طرح قیدی عورتوں میں ہے اسی طرح خریدی ہوئی ، بطور ہدیہ حاصل شدہ ، یا اس کی مثل کسی اور ذریعے سے حاصل کی ہوئی لونڈیوں کو بھی شامل ہے۔ اس لیے ان سے بھی مذکورہ صورت میں ہم بستری نہیں کی جائے گی جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ
إذا وهبت الوليدة التى توطأ أو بيعت أو عتقت فليستبراً رحمها بحيضة ولا تستبرأ العذراء
”جب ایسی لونڈی جس سے وطی کی جاتی ہو ، ہبہ کی جائے یا فروخت کی جائے یا آزاد کر دی جائے تو ایک حیض تک اس کے رحم کی براءت حاصل کرنی چاہیے اور کنواری کے لیے استبرائے رحم کی ضرورت نہیں ۔“
[بخارى تعليقا: قبل الحديث / 2235 ، كتاب البيوع: باب هل يسافر بالجارية قبل أن يستبرئها]
(اہل ظاہر ) قیدی عورتوں کے علاوہ کسی پر بھی استبراء نہیں ہے (کیونکہ قیاس جائز نہیں لٰہذا حدیث میں جن کا ذکر ہے انہی پر اکتفاء کیا جائے گا اور وہ صرف قیدی عورتیں ہی ہیں ) ۔
[المحلى: 315/10 – 320]
جسے حیض نہیں آتا اس کی عدت حمل نہ ہونے کی واضح علامت ملنے تک ہے اور کنواری اور چھوٹی عمر کی لونڈی کے لیے استبراء ضروری نہیں اور نہ ہی فروخت کرنے والے یا اس کی مثل کسی پر استبراء لازم ہے
کیونکہ حیض کے ذریعے ہی حمل نہ ہونے کا علم ہو سکتا ہے لٰہذا جب جوانی کی عمر میں حیض منقطع ہو جائے تو اسے کسی بیماری کی وجہ سے ہی منقطع تصور کیا جائے گا اور اگر عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے حیض ختم ہو چکا ہو تو اس کا حمل بھی نا ممکن تصور کرتے ہوئے اس پر استبراء کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔
کنواری اور بچی پر استبراء کی عدت ضروری ہے کہ نہیں اس میں فقہا نے اختلاف کیا ہے۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ ان پر بھی استبرائے رحم واجب ہے جیسا کہ حدیث میں ولا غير حامل کے لفظ مطلقا بیان کیے گئے ہیں جو ان دونوں کو بھی شامل ہیں۔
لیکن اہل علم کی ایک دوسری جماعت کا یہ موقف ہے کہ استبراء صرف اسی پر ضروری ہے جس کے رحم کی (حمل سے ) براءت معلوم نہ ہو اور جس کی براءت (کم عمر یا کنواری ہونے کی وجہ سے پہلے ہی ) معلوم ہو تو اس پر استبراء لازم نہیں جیسا کہ :
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
ولا تستبرأ العذراء
”کنواری کے لیے استبرائے رحم کی ضرورت نہیں ۔“
[بخاري: قبل الحديث/ 2235]
نیز گذشته حضرت رو یفع رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی اس کی مؤید ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن میں مال خمس سے ایک لونڈی (اپنے لیے) چن لی ۔ پھر صبح غسل کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کام کو اس کا علم ہوا تو آپ نے کچھ نہ کہا۔
[بخاري: 4350 ، كتاب المغازي: باب بعث على بن أبى طالب وخالد بن وليد ، أحمد: 359/5]
اس قصہ کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چنی ہوئی لونڈی کنواری تھی اور کنواری پر استبراء ضروری نہیں کیونکہ اس کی براءت رحم پہلے ہی معلوم ہے۔
(ابن تیمیہؒ ) اسی کے قائل ہیں ۔
[كما فى نيل الأوطار: 407/4]
(ابن قیمؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔
[زاد المعاد: 711/5 – 745]
کیونکہ کتاب و سنت میں اس کی کوئی دلیل موجود نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1