قیامت کے دن عرشِ الٰہی کا سایہ: سات خوش نصیب لوگوں کی تفصیلی وضاحت
ماخذ: خطبات حافظ محمد اسحاق زاہد، مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

اس مضمون میں ہم صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی اُس متفق علیہ حدیث کی وضاحت پیش کر رہے ہیں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سات خوش نصیب لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جنہیں قیامت کے روز عرشِ الٰہی کے سائے میں جگہ ملے گی، اُس دن جب کوئی اور سایہ موجود نہ ہوگا۔
اس مضمون میں آپ حدیث کے متن، اس کے مفاہیم، قرآنی دلائل، قیامت کی ہولناک کیفیت، اور ان ساتوں گروہوں کی تفصیلی وضاحت پڑھیں گے۔ آخر میں مضمون کا خلاصہ اور نتیجہ بھی پیش کیا جائے گا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( سَبْعَۃٌ یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِی ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہُ ))
ترجمہ:
"سات قسم کے لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا، اس دن جب اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔”
(صحیح البخاری: 660، صحیح مسلم: 1031)

حدیث میں مذکور سات طبقات:

((اَلْإِمَامُ الْعَادِلُ ))
ترجمہ: "عادل حکمران۔”

((وَشَابٌّ نَشَأَ بِعِبَادَۃِ اللّٰہِ ))
ترجمہ: "وہ نوجوان جس کی پرورش اللہ کی عبادت میں ہوئی۔”

((وَرَجُلٌ قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ فِی الْمَسَاجِدِ ))
ترجمہ: "وہ آدمی جس کا دل مسجدوں سے لگا رہتا ہو۔”

((وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِی اللّٰہِ ، اجْتَمَعَا عَلَیْہِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ ))
ترجمہ: "دو آدمی جو اللہ کی رضا کیلئے ایک دوسرے سے محبت کریں، اسی پر جمع ہوں اور اسی پر جدائی ہو۔”

((وَرَجُلٌ دَعَتْہُ امْرَأَۃٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَّجَمَالٍ فَقَالَ : إِنِّی أَخَافُ اللّٰہَ ))
ترجمہ: "وہ شخص جسے کوئی باعزت اور خوبصورت عورت برائی کی دعوت دے اور وہ کہہ دے: میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔”

((وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَأَخْفَاہَا حَتّٰی َلا تَعْلَمَ شِمَالُہُ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہُ ))
ترجمہ: "وہ شخص جو اس طرح خفیہ صدقہ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔”

((وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ))
ترجمہ: "وہ شخص جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں۔”

قیامت کا دن — ہولناک لمحات

قرآن و حدیث میں قیامت کی ہولناکی تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ اس مضمون میں پہلے اس دن کی کیفیت ذکر کی جائے گی تاکہ سمجھا جا سکے کہ ایسے خوفناک دن میں عرش الٰہی کا سایہ کتنی عظیم نعمت ہے۔

﴿تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِینَ اَلْفَ سَنَۃٍ﴾
(المعارج 70:4)
ترجمہ:
"فرشتے اور روح (جبریل) اس کی طرف چڑھ کر جائیں گے ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی۔”

یہ کوئی پچاس دن نہیں، پچاس ہزار سال کا دن ہوگا!

آیت:

﴿فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَا﴾
(المزمل 73:17)
ترجمہ:
"اگر تم نے کفر اختیار کیا تو اس دن کے عذاب سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بھی بوڑھا بنا دے گا۔”

سورج کا قریب آنا

((تُدْنَی الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنَ الْخَلْقِ حَتّٰی تَکُوْنَ مِنْہُمْ کَمِقْدَارِ مِیْلٍ))
ترجمہ:
"قیامت کے دن سورج لوگوں کے اتنا قریب کر دیا جائے گا کہ ان سے ایک میل کے فاصلے پر ہوگا۔”
(صحیح مسلم: 2864)

پھر ہر شخص اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں ڈوبا ہوگا—کسی کے ٹخنوں تک، کسی کے گھٹنوں تک اور کسی کے منہ تک۔

توضیحات اور اہم تنبیہات

تفصیل میں جانے سے پہلے نبی کریم ﷺ کی حدیث کے بارے میں چند اہم وضاحتیں ضروری ہیں:

پہلی تنبیہ
حدیث میں جو لفظ "سَبْعَةٌ” آیا ہے، اس سے مراد سات افراد نہیں بلکہ سات قسمیں ہیں۔
لہٰذا یہ صفات جس شخص میں بھی پائی جائیں—مرد ہو یا عورت—وہ عرش کے سائے کا مستحق ہوگا۔

دوسری تنبیہ
یہ فضیلت صرف مردوں کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ وہ خواتین بھی اس سعادت میں شامل ہوں گی جن میں یہ اوصاف موجود ہوں گے۔

تیسری تنبیہ
عرش کے سائے تلے جمع ہونے والے لوگ صرف یہی سات نہیں، بلکہ دیگر احادیث میں بھی کچھ مزید خوش نصیب لوگوں کا ذکر آیا ہے۔
ان کا ذکر ہم مضمون کے آخر میں کریں گے۔

چوتھی تنبیہ
بعض روایات میں سایہ "ظلّہ” یعنی اللہ کے سائے کا ذکر ہے، اور بعض میں "ظل عرشہ” یعنی عرش کے سائے کا۔
سلف صالحین کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک مراد عرش کا سایہ ہے، جبکہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے نزدیک مراد اللہ تعالیٰ کا سایہ ہے—اور اس کی کیفیت ہم نہیں جانتے۔

پہلا خوش نصیب: عادل حکمران

متنِ حدیث:

(( اَلْإِمَامُ الْعَادِلُ ))
ترجمہ: "عادل حکمران۔”

سب سے پہلا درجہ اُس حکمران کا ہے جو اپنی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف کرے، اپنی خواہشات اور دنیوی دباؤ سے ہٹ کر اللہ کے احکام کے مطابق فیصلے کرے۔

امام سے مراد کون؟

علماء کے مطابق یہاں "امام” سے مراد:

◈ ملک کا سربراہ
◈ قاضی
◈ افسرانِ بالا
◈ ہر وہ شخص جس کے ہاتھ میں کسی معاملے کا اختیار ہو

یعنی جسے بھی فیصلے کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہو، وہ اس کے مطابق اللہ کے ہاں جوابدہ ہے۔

حضرت داؤد علیہ السلام کو حکم

﴿یٰدَاوٗدُ اِِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾
(ص 38:26)
ترجمہ:
"اے داؤد! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہٰذا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیجئے اور خواہشات کی پیروی نہ کیجئے، ورنہ وہ اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں گی۔”

نبی کریم ﷺ کو عدل کا حکم

﴿فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَھُمْ﴾
(المائدہ 5:48)
ترجمہ:
"آپ ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔”

اہلِ ایمان کو عدل کا حکم

﴿اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ﴾
(النساء 4:58)
ترجمہ:
"جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔”

عدل کرنے والوں کی فضیلت

(( إِنَّ الْمُقْسِطِیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ عَلٰی مَنَابِرَ مِنْ نُّوْرٍ… ))
(صحیح مسلم: 1827)
ترجمہ:
"عدل کرنے والے اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گے، رحمن کے دائیں طرف… یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں میں، اپنے گھر والوں میں اور اپنی ذمہ داریوں میں انصاف کرتے ہیں۔”

ظلم و ناانصافی پر سخت وعید

(( مَا مِنْ عَبْدٍ یَسْتَرْعِیْہِ اللّٰہُ رَعِیَّۃً… ))
(صحیح البخاری: 7151، صحیح مسلم: 142)
ترجمہ:
"جسے اللہ کسی رعایا کا ذمہ دار بنائے اور وہ ان کے ساتھ خیانت کرتا رہے، پھر اسی حالت میں مر جائے تو اللہ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے۔”

دوسرا خوش نصیب: عبادت گزار نوجوان

متنِ حدیث:

(( وَشَابٌّ نَشَأَ بِعِبَادَۃِ اللّٰہِ ))
ترجمہ: "وہ نوجوان جس کی پرورش اللہ کی عبادت پر ہوئی۔”

جوانی خواہشات، فتنوں اور آزمائشوں کا دور ہے۔ جو نوجوان اس عمر میں اللہ کی اطاعت میں رہے، وہ بقیہ زندگی میں بھی دین پر ثابت قدم رہتا ہے اور قیامت کے دن عرش کا سایہ پانے والوں میں شامل ہوگا۔

اصحابِ کہف کا واقعہ — نوجوانوں کی مثال

﴿اِنَّھُمْ فِتْیَۃٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّھِمْ وَزِدْنٰھُمْ ھُدًی﴾
(الکہف 18:13)
ترجمہ:
"یہ کچھ نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے، تو ہم نے انہیں ہدایت میں بڑھا دیا۔”

حدیثِ نبوی ﷺ: جوانی کی قدر

(( اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ… ))
(صحیح الترغیب والترہیب: 3355)
ترجمہ:
"پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو: اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، زندگی کو موت سے پہلے…”

قیامت میں جوانی کے بارے میں سوال

(( لَا تَزُوْلُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ… ))
(جامع الترمذی: 2416)
ترجمہ:
"قیامت کے دن آدمی کے قدم نہیں ہلیں گے جب تک پانچ چیزوں کا جواب نہ دے: … اس کی جوانی کہاں صرف ہوئی۔”

تیسرا خوش نصیب: مسجد سے محبت رکھنے والا شخص

متنِ حدیث:

(( وَرَجُلٌ قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ فِی الْمَسَاجِدِ ))
ترجمہ:
"وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں معلق (جڑا ہوا) ہو۔”

یعنی وہ شخص جو مسجد کو اپنا حقیقی مرکز سمجھتا ہے، وہاں سکون پاتا ہے، وہاں سے نکلتا ہے تو دوبارہ آنے کے شوق میں رہتا ہے۔ مسجدوں کو آباد کرنا ایمان کی علامت ہے۔

﴿اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ…﴾
(التوبہ 9:18)
ترجمہ:
"اللہ کی مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے، نماز قائم کی، زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے۔ امید ہے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔”

مسجد میں آنے والا اللہ کا مہمان

(( مَنْ تَوَضَّأَ وَجَائَ إِلَی الْمَسْجِدِ فَہُوَ زَائِرٌ اللّٰہَ… ))
(السلسلۃ الصحیحۃ: 1169)
ترجمہ:
"جو شخص وضو کرکے مسجد کی طرف آتا ہے، وہ اللہ کا مہمان ہوتا ہے، اور میزبان (اللہ) پر مہمان کی عزت کرنا حق ہے۔”

مسجد کی طرف چلنے والے کے لیے جنت میں مہمانی

(( مَنْ غَدَا إِلَی الْمَسْجِدِ أَوْ رَاحَ… ))
(صحیح بخاری: 662، صحیح مسلم: 669)
ترجمہ:
"جو شخص صبح یا شام مسجد کی طرف جائے، اللہ اس کے لیے جنت میں مہمان نوازی تیار کرتا ہے۔”

اندھیروں میں مسجد جانے والوں کے لیے نور

(( بَشِّرِ الْمَشَّائِیْنَ فِی الظُّلَمِ إِلَی الْمَسَاجِدِ… ))
(سنن ابی داود: 561)
ترجمہ:
"اندھیروں میں مسجدوں کی طرف چل کر جانے والوں کو خوش خبری دے دو کہ قیامت کے دن ان کے لیے مکمل نور ہوگا۔”

چوتھا خوش نصیب: اللہ کے لیے محبت کرنے والے دو افراد

متنِ حدیث:

(( وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِی اللّٰہِ، اجْتَمَعَا عَلَیْہِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ ))
ترجمہ:
"دو آدمی جو اللہ کی رضا کے لیے ایک دوسرے سے محبت کریں، اسی پر جمع ہوں اور اسی پر جدا ہوں۔”

یہ محبت کسی دنیاوی مفاد، منصب، مال، یا رشتہ داری کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ صرف اللہ کی خاطر ہوتی ہے۔

قیامت کے دن اللہ کی پکار

(( أَیْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلَالِی… ))
(صحیح مسلم: 2566)
ترجمہ:
"اللہ قیامت کے دن فرمائے گا: کہاں ہیں وہ لوگ جو میری جلال کی خاطر آپس میں محبت کرتے تھے؟ آج میں انہیں اپنے سائے میں رکھوں گا، جب میرے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔”

ایمان کی مٹھاس محبتِ الٰہی سے

(( ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ حَلَاوَۃَ الْإِیْمَانِ… ))
(بخاری 16، مسلم 43)
ترجمہ (متعلقہ حصہ):
"کہ جب کسی سے محبت کرے تو صرف اللہ کی خاطر کرے۔”

اللہ کی محبت واجب ہونا

(( وَجَبَتْ مَحَبَّتِی لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ… ))
(صحیح الترغیب والترہیب: 3018)
ترجمہ:
"اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میری محبت ان لوگوں کے لیے لازمی ہو جاتی ہے جو میری خاطر محبت کرتے، میری خاطر ایک دوسرے سے ملتے اور میری خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔”

پانچواں خوش نصیب: زنا کی دعوت کو اللہ کے ڈر سے ٹھکرانے والا شخص

متنِ حدیث:

(( وَرَجُلٌ دَعَتْہُ امْرَأَۃٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ: إِنِّی أَخَافُ اللّٰہَ ))
ترجمہ:
"وہ شخص جسے کوئی باعزت اور خوبصورت عورت برائی کی دعوت دے مگر وہ کہہ دے: میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔”

یہ ایمان، تقویٰ اور خوفِ خدا کی مضبوطی کی بے مثال علامت ہے۔

یوسف علیہ السلام کا واقعہ

﴿قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ﴾
ترجمہ:
"یوسف علیہ السلام نے کہا: میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔”

اس جملے نے انہیں عظیم فتنہ سے بچا لیا، اور یہی تقویٰ ہر مؤمن کی ڈھال ہے۔

قرآن میں وعدۂ جنت

﴿وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی ٭ فَإِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأْوٰی﴾
(النازعات 40–41)
ترجمہ:
"جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکے، اس کا ٹھکانا جنت ہے۔”

حدیث: تین افراد کا غار والا واقعہ

یہ واقعہ بخاری و مسلم میں مذکور ہے، اس میں ایک شخص نے اپنی چچا زاد کے ساتھ ہونے والے واقعے کا ذکر کیا:

جب وہ بدکاری کے قریب پہنچ گیا تو لڑکی نے کہا:
(( یَا عَبْدَ اللّٰہِ ! اِتَّقِ اللّٰہَ… ))
ترجمہ:
"اے اللہ کے بندے! اللہ سے ڈر، میری پاکیزگی کو اس کے حق کے بغیر نہ توڑ۔”

چنانچہ اس نے فوراً برائی چھوڑ دی اور اس اخلاص کے ذریعے اللہ نے ان کی مشکل دور کی۔

یہ حصہ یہاں مکمل ہوا۔
اگلے حصے میں ہم حدیث کے چھٹے اور ساتویں گروہ کی تفصیل بیان کریں گے:

◈ خفیہ صدقہ کرنے والا
◈ تنہائی میں اللہ کو یاد کرکے رونے والا

اور پھر دوسرا خطبہ یعنی دیگر خوش نصیب طبقات۔

چھٹا خوش نصیب: خفیہ صدقہ کرنے والا شخص

متنِ حدیث:

(( وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَأَخْفَاہَا حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہُ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہُ ))
ترجمہ:
"وہ شخص جس نے اس طرح خفیہ صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہوا کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔”

یہ اخلاص، تقویٰ اور ریاکاری سے مکمل دوری کی علامت ہے۔ ایسا شخص اپنی نیکی صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے، نہ اسے دکھاتا ہے، نہ لوگوں سے تعریف چاہتا ہے۔

﴿إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا ہِیَ وَإِن تُخْفُوہَا وَتُؤْتُوہَا الْفُقَرَائَ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَیُکَفِّرُ عَنکُمْ مِّن سَیِّئَاتِکُمْ﴾
(البقرہ 2:271)
ترجمہ:
"اگر تم صدقات ظاہر کر کے دو تو بھی اچھا ہے، اور اگر انہیں پوشیدہ رکھ کر فقیروں کو دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اور یہ تمہارے گناہوں کو بھی مٹا دے گا۔”

خفیہ صدقہ اللہ کے غضب کو بجھا دیتا ہے

(( صَدَقَۃُ السِّرِّ تُطْفِیئُ غَضَبَ الرَّبِّ ))
(السلسلۃ الصحیحۃ: 1908)
ترجمہ:
"خفیہ صدقہ رب کے غضب کو بجھا دیتا ہے۔”

صدقہ قیامت کے دن سایہ بنے گا

(( کُلُّ امْرِیئٍ فِی ظِلِّ صَدَقَتِہٖ حَتّٰی یُقْضَی بَیْنَ النَّاسِ ))
(صحیح الجامع: 4510)
ترجمہ:
"ہر شخص قیامت کے دن اپنے صدقے کے سائے میں ہوگا، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلے ہو جائیں۔”

اس کا مطلب ہے کہ خفیہ صدقہ کرنے والا دوہرا سایہ پائے گا:
➊ صدقے کا اپنا سایہ
➋ عرشِ الٰہی کا سایہ

ساتواں خوش نصیب: تنہائی میں اللہ کو یاد کرکے رونے والا شخص

متنِ حدیث:

(( وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ ))
ترجمہ:
"وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔”

یہ خشیت، ایمان اور اللہ کے قرب کی سب سے عظیم کیفیتوں میں سے ایک ہے۔ تنہائی میں بہنے والے آنسو ریاکاری سے پاک ہوتے ہیں، اسی لیے ان کا درجہ بہت بڑا ہے۔

اللہ کا ذکر سن کر ایمان بڑھ جانا

﴿إِنَّمَا الْمُؤمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اﷲُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ…﴾
(الأنفال 2–4)
ترجمہ:
"سچے مؤمن وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جائیں، اور جب ان پر اللہ کی آیات تلاوت کی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جائے، اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں… یہی سچے مؤمن ہیں جن کے لیے درجات، مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔”

دو آنکھیں جنہیں جہنم نہیں چھوئے گی

(( عَیْنَانِ لَا تَمَسُّہُمَا النَّارُ: عَیْنٌ بَکَتْ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ، وَعَیْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ ))
(صحیح الجامع: 4113)
ترجمہ:
"دو آنکھیں ایسی ہیں جنہیں جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی:
➊ وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے رو دی،
➋ اور وہ آنکھ جو اللہ کے راستے میں پہرا دیتی رہی۔”

سات خوش نصیب طبقات کی تکمیل

اس طرح حدیث میں بیان کردہ ساتوں خوش نصیب گروہوں کی تفصیل مکمل ہوئی:

❀ عادل حکمران
❀ عبادت گزار نوجوان
❀ مسجد سے محبت رکھنے والا
❀ اللہ کے لیے محبت کرنے والے
❀ فتنۂ نسواں سے بچنے والا
❀ خفیہ صدقہ کرنے والا
❀ تنہائی میں اللہ کو یاد کرکے رونے والا

اللہ تعالیٰ ہمیں ان صفات میں سے کسی نہ کسی صفت کا حامل بنا دے۔ آمین۔

آٹھواں خوش نصیب: تنگدست کو مہلت دینے یا معاف کر دینے والا شخص

متنِ حدیث:

(( مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ عَنْہُ أَظَلَّہُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٖ ))
(صحیح مسلم: 3006)
ترجمہ:
"جس شخص نے کسی تنگدست کو مہلت دی یا اسے معاف کر دیا، اللہ تعالیٰ اسے اپنے سائے میں سایہ دے گا۔”

(( مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ لَہٗ، أَظَلَّہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہٗ ))
(صحیح الجامع: 6107)
ترجمہ:
"جو شخص تنگدست کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کر دے، اللہ تعالیٰ اسے اپنے عرش کے سائے کے نیچے جگہ دے گا، اس دن جب اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں۔”

(( مَنْ سَرَّہُ أَنْ یُّنْجِیَہُ اللّٰہُ مِنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَأَنْ یُظِلَّہُ تَحْتَ عَرْشِہٖ فَلْیُنْظِرْ مُعْسِرًا ))
(صحیح الترغیب والترہیب: 903)
ترجمہ:
"جسے یہ خواہش ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی سختیوں سے محفوظ رکھے اور اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے، اسے چاہیے کہ تنگدست کو مہلت دے۔”

یہ خوش نصیبی اس شخص کے لیے ہے جو محتاج کو دباؤ میں لانے کے بجائے اس کے ساتھ نرمی کرے—یا قرض پورا معاف ہی کر دے۔

نواں خوش نصیب: سچا اور دیانت دار تاجر

اثرِ صحابی:

حضرت سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(( اَلتَّاجِرُ الصَّدُوقُ مَعَ السَّبْعَۃِ فِی ظِلِّ عَرْشِ اللّٰہِ تَعَالٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ))
(الثمر المستطاب 1/632، سند حسن)
ترجمہ:
"سچا تاجر قیامت کے دن ان سات خوش نصیب لوگوں کے ساتھ ہوگا جو اللہ کے عرش کے سائے میں ہوں گے۔”

تاجر کا فتنے میں پڑ جانا آسان ہے—جھوٹ، دھوکا، کم ماپنا، سود…
لیکن جو سچائی اور دیانت پر قائم رہے، وہ عرش کا سایہ پانے والوں میں ہوگا۔

دسواں خوش نصیب: مجاہد کی مدد کرنے والا

گیارھواں خوش نصیب: تنگدست مقروض کی مدد کرنے والا

بارھواں خوش نصیب: غلام کی آزادی میں تعاون کرنے والا

یہ تینوں گروہ ایک ہی حدیث میں مذکور ہیں:

((مَنْ أَعَانَ مُجَاہِدًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، أَوْ غَارِمًا فِیْ عُسْرَتِہٖ، أَوْ مُکَاتِبًا فِیْ رَقَبَتِہٖ، أَظَلَّہُ اللّٰہُ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہُ ))
(مصنف ابن ابی شیبہ 13/7: 22615، سند حسن)
ترجمہ:
"جس شخص نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد کی مدد کی، یا کسی تنگدست مقروض کی مدد کی، یا کسی غلام کی آزادی میں مدد کی، اللہ تعالیٰ اسے اس دن سایہ نصیب کرے گا جب اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا۔”

اللہ کے بندوں کی مشکل آسان کرنا۔
جس نے دنیا میں لوگوں کی تنگی آسان کی، اللہ تعالیٰ قیامت کی سختی اس پر آسان کر دے گا۔

✦ نتیجہ

قیامت کا دن انتہائی سخت دن ہوگا جس کی ہولناکی قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ اُس دن اللہ تعالیٰ صرف اُن لوگوں کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا جنہوں نے دنیا میں:

◈ عدل قائم کیا
◈ جوانی میں اللہ کی اطاعت کی
◈ مسجدوں سے محبت رکھی
◈ اللہ کے لیے محبت کی
◈ فتنۂ نسواں سے بچے
◈ خفیہ صدقہ کیا
◈ تنہائی میں اللہ سے روئے
◈ تنگدستوں کی مدد کی
◈ دیانت دار تجارت کی
◈ اللہ کے راستے والوں کی اعانت کی
◈ غلاموں کی آزادی میں اپنا حصہ ڈالا

ان تمام صفات کا مقصد صرف ایک ہے:

اللہ کی رضا حاصل کرنا اور آخرت کی کامیابی پانا۔

جو شخص ان اعمال میں سے کسی عمل کو اپنا لیتا ہے، وہ ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہوسکتا ہے جنہیں قیامت کے روز اللہ کا عرش سایہ عطا کرے گا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان سعادت یافتہ لوگوں میں شامل فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے