مجاہدین اور دنیا پرستوں کے درمیان فرق
🌸امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((حدثنا حسن ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت لبناني ، عن أنس بن مالك ، أن رسول الله قال : يؤتى برجل يوم القيامة من أهل الجنة، فيقول الله: يا ابن آدم كيف وجدت منزلك ؟ فيقول : أى رب ، خير منزل، فيقول له : سل وتمنه. فيقول : ما أسأل وأتمنى إلا أن تردني إلى الدنيا، فأقتل. لما رأى من فضل الشهادة، قال : ثم يؤتى برجل من أهل النار، فيقول له : يا ابن آدم ، كيف وجدت منزلك ؟ فيقول : أي رب، شر منزل. فيقول: أتفتدى منه بطلاع الأرض ذهبا، فيقول : نعم أى رب. فيقول : كذبت، قد سألتك ما هو أهل من ذا فلم تفعل فيرد إلى النار.))
🌸سیدنا انس بن مالک رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قیامت کے دن اہل جنت میں سے ایک آدمی لا یا جائے گا، اللہ عز وجل اس سے فرمائے گا: اے ابن آدم ! اپنا گھر کیسا پایا؟ وہ کہے گا: اے رب ! بہترین گھر ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: مانگ اور تمنا کر، وہ کہے گا: میں کچھ مانگتا ہوں اور نہ تمنا کرتا ہوں، الا یہ کہ آپ مجھے دنیا میں واپس بھیج دیجیے، تاکہ مجھے دوبارہ قتل کیا جائے ، کیونکہ شہادت کی فضیلت دیکھ چکا ہو گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر جہنم والوں میں سے ایک آدمی لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے ! اپنا گھر کیسا لگا؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! بہت برا گھر ہے، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تو اس گھر سے بچنے کے لیے دنیا بھر سونا بطور فدیہ دینا چاہے گا؟ تو وہ کہے گا: اے میرے رب! جی ہاں، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بولتا ہے، میں نے تجھ سے بہت کم مانگا تھا، تو نے اتنا بھی نہیں کیا، پھر اسے جہنم میں واپس کر دیا جائے گا۔‘‘
تخريج الحديث:
🌿مسند أحمد (۲۳۹۳)، ح: ١٣٥٤٥، سنن النسائي ، ح: ٣١٦٢ بتحقيقي نيز مسند أحمد (۲۰۷/۳، ۱۳۱) مسند عبد بن حميد ، (۱۳۲۹) میں حماد بن سلمہ کی اسی سند سے حدیث موجود ہے، اور یہ حدیث صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ اس سند میں حسن“ سے مرادحسن بن موسیٰ الاشیب ہے۔
فقہ الحدیث:
◈اس حدیث میں جہاد فی سبیل اللہ اور دینِ حنیف کی سربلندی کے لیے لڑنے والے مجاہدین کی عظیم فضیلت کا تذکرہ ہے، کیوں کہ مجاہد قیامت کہ روز بھی یہی تمنا کرے گا کہ دنیا میں واپس جائے اور اللہ کے راستے میں کفار سے لڑے۔
◈دنیا دار الامتحان ہے، لہذا جو آدمی مر جائے یا قتل کر دیا جائے، وہ کسی صورت اس دنیا میں واپس لوٹ کر نہیں آسکتا ، سوائے اس کے جس کی تخصیص قرآن مجید اور صحیح احادیث میں موجود ہے۔
◈دنیا اپنے تمام ساز و سامان کے ساتھ بھی جنت کی کسی ایک نعمت کے برابر نہیں ہو سکتی، پھر کیا وجہ ہے کہ دنیا والے جنت اور اس کی نعمتوں سے اس قدر غافل ہیں، حالانکہ جنت ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گی، اور دنیا بہت تیزی سے فنا ہو جائے گی۔
◈حدیث میں وارد ’’اہل جنت میں سے ایک آدمی‘‘ سے مراد شہید ہے ، جو اللہ کے راستے میں، اللہ کے کلمہ کی سربلندی کی غرض سے قربان ہو گیا۔ امام نسائی نے حسن سند کے ساتھ سیدنا عبادہ رضی الله عنه سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’زمین پر ایسا کوئی آدمی نہیں، جس کے لیے اللہ کے ہاں خیر بھی ہو اور وہ مرنے کے بعد تمہارے پاس (دنیا میں) لوٹ کر آنا پسند کرتا ہو، چاہے اسے پوری دنیا بھی مل جائے ، سوائے شہید کے، کیوں کہ اسے بہت پسند ہے کہ وہ واپس آکر ایک مرتبہ پھر قتل ہو جائے ۔‘‘
🌿(سنن النسائى : ٣١٦١)
◈علامہ ابو الحسن السندی نے امام نسائی کی السنن المجتبی کی شرح (۳۴۳/۶) میں فرمایا: فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ’’قیامت کے دن آدمی کو لایا جائے گا‘‘ سے مراد شہید بھی ہو سکتا ہے اور کوئی دوسرا آدمی بھی، کہ جب وہ شہادت کی فضیلت دیکھے گا تو تمنا کرے گا کہ واپس جا کر قتل ہو جائے لیکن سابقہ حدیث (یعنی حدیث عبادہ) ساتھ ملائی جائے تو پہلا معنی یعنی شہید ہی معلوم ہوتا ہے، دونوں حدیثوں میں اس طرح موافقت بھی ہو سکتی ہے کہ پہلی حدیث سے مراد برزخ کے ایام ہوں اور اس حدیث کا مفہوم قیامت کے دن جنت میں داخلے کے بعد ہو۔
◈اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفت کلام بھی ثابت ہوتی ہے، اور بروز قیامت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کلام فرمائے گا۔ لہذا وہ آدمی ناکام و نامراد ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکاری ہے، یا معطلہ کی طرح ان صفات باری تعالی کی غلط تاویلیں کرتا ہے، اور سلف صالحین کے منہج پر نہیں چلتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں زمرہ اسلام میں کرے۔ اس حدیث میں مزید فوائد بھی موجود ہیں۔