قیامت کے دن سب سے اول علی رضی اللہ عنہ مجھ سے ملاقات کرینگے
لیلی غفاری کا بیان ہے کہ میں غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاتی۔ زخمیوں کی دو دارو کرتی اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی۔ جب علی رضی اللہ عنہ بصرہ چلے تو میں ان کے ساتھ گئی تو میں نے عائشہ رضی اللہ عنہ کو کھڑے دیکھا (تن تنہا اور پیدل) تو میں ان کے پاس پہنچی۔ اور میں نے ان سے عرض کیا۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت نہیں سنی۔ انہوں نے جواب دیا ہاں میں نے سنی ہے۔
ایک بار علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے بستر پر بیٹھے تھے۔ اور آپ ایک چادر اوڑھے تھے علی رضی اللہ عنہ ہمارے درمیان بیٹھ گئے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں میں نے ان سے عرض کیا، آپ کو اس کے علاوہ کوئی کشادہ جگہ نہیں ملی۔ آپ نے ارشاد فرمایا۔ اے عائشہ رضی اللہ عنہ میرے بھائی کو چھوڑ دے۔ کیونکہ یہ لوگوں میں سب سے اول اسلام لایا۔ اور موت کے وقت سب سے آخری عہد اس سے ہوگا اور قیامت کے روز سب سے پہلے یہ مجھ سے ملاقات کرے گا۔ [ميزان الاعتدال : 556/6 و أخرجه العقيلي فى الضعفاء 166/4]
اس روایت کا راوی موسی بن القاسم ہے۔ بخاری کا بیان ہے یہ ایسی روایات نقل کرتا ہے۔ جو اور کوئی روایت نہیں کرتا۔ ذہبی کا بیان ہے کہ اس روایت کے تمام راوی مجہول ہیں۔
اس روایت کا پہلا راوی عبد السلام ابو الصلت ہے۔ جس پر وضع حدیث کا الزام ہے۔ ہمارے نزدیک یہ بھی ایک نہایت ہی نا مناسب بات ہے کہ میاں بیوی کے درمیان چچا زاد بھائی گھس کر بیٹھ جائے سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ رہ گیا وفات کے وقت کا عہد تو بخاری و مسلم میں تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا، اے عائشہ رضی اللہ عنہا ! اپنے باپ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور بھائی کو بلالے تاکہ میں ان کے لیے خلافت لکھ دوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اٹھنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا بدن سہار نہ سکے۔ آپ نے ارشاد فرمایا رہنے دے کیونکہ اللہ اور مسلمان ابو بکر کے علاوہ کسی کو اختیار نہ کریں گے۔ غالبا یہ کہانی اسی حدیث صحیح کے جواب میں تیار کی گئی ہے۔