قومِ لوط والا عمل (مردوں کے ساتھ بدفعلی) – شریعت کی روشنی میں سختی سے ممنوع
قرآن مجید میں قومِ لوط کا ذکر اور اس کے انجام کا بیان:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ ﴿٢٨﴾ (العنکبوت)
’’اور لوط کا بھی ذکر کرو جب انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم تو اس بدکاری پر اترآئے ہو جسے تم سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہیں کیا۔ کیا تم مردوں کے پاس بد فعلی کے لیے آتے ہو؟‘‘
قومِ لوط وہ پہلی قوم تھی جس نے اس گھناؤنے عمل کی بنیاد رکھی۔ ان کے انجام کو قرآن یوں بیان کرتا ہے:
فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ ﴿٨٢﴾ (ھود)
’’پھر جب ہمارا حکم آپہنچا، ہم نے اس بستی کے اوپر کا حصہ نیچے کر دیا اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھے۔‘‘
قومِ لوط کے عمل کی حرمت اور سزائیں احادیث کی روشنی میں:
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم کسی کو لوط علیہ السلام کی قوم والا عمل (مرد کا مرد سے بدفعلی) کرتے دیکھو تو فاعل (کرنے والا) اور مفعول (کروانے والا) دونوں کو قتل کر دو۔‘‘
(ابو داود۔ الحدود۔ باب فی من عمل عمل قوم لوط۔ 4462، ترمذی۔ 1456)
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سب سے بڑھ کر اپنی امت پر مجھے جس چیز کا خوف ہے وہ قومِ لوط جیسا عمل کرنا ہے‘‘
(ترمذی: 1482، ابن ماجہ: 2563، قال الشيخ الألباني: حسن، وقال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ کی اس پر لعنت ہے جو شخص قومِ لوط جیسا عمل کرے۔ اللہ کی اس پر لعنت ہے جو شخص قومِ لوط جیسا عمل کرے۔ اللہ کی اس پر لعنت ہے جو شخص قومِ لوط جیسا عمل کرے۔‘‘
(مسند احمد: 317/1، صحیح الجامع 5891)
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا جو کسی مرد یا عورت کے ساتھ اس کی دبر میں بدفعلی کرے”
(ترمذی: 1165)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ملعون ہے وہ شخص جس نے اپنی بیوی کی دبر میں بدفعلی کی‘‘
(ابو داؤد: 2162)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص کسی کاہن کے پاس گیا اور جو اس نے کہا اس نے اس کی تصدیق کی یا اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں یا اس کی دبر میں صحبت کی تو اس نے اس دین سے برأت کر دی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا”
(ابو داؤد: 3904)
دیوثی – بے غیرتی کا مظہر
دیوث وہ شخص ہے جو اپنے اہلِ خانہ کو بے حیائی یا اس کے اسباب میں ملوث دیکھ کر خاموش رہے یا اس پر خوش ہو۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تین قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن (رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا:
1. ماں باپ کا نافرمان۔
2. مردانہ طور طریقوں والی عورت۔
3. دیوث۔
اور تین قسم کے لوگ جنت میں داخل نہ ہوں گے:
1. ماں باپ کے نافرمان
2. ہمیشہ شراب پینے والے
3. مدد کرنے کے بعد احسان جتلانے والے‘‘
(نسائی۔ الزکاۃ، باب المنان بما اعطیٰ 2563)
آج کل دیوثی عام ہو چکی ہے، جہاں مرد اجنبی مردوں کے ساتھ اپنی بیوی یا بیٹی کی خلوت یا فحش گفتگو پر خاموش رہتے ہیں۔ اس بے غیرتی کی وجہ اکثر بے حیائی پر مبنی میڈیا مواد ہوتا ہے۔
شلوار یا کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا:
یہ عمل بھی حرام ہے، خواہ تکبر سے ہو یا بغیر تکبر کے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو تہہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکے وہ جہنم میں ہے‘‘
(بخاری۔ اللباس۔ ما اسفل فی الکعبین فھو فی النار 5787)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
’’مومن کا تہہ بند آدھی پنڈلی تک ہو تو کوئی حرج نہیں۔ اور آدھی پنڈلی سے ٹخنے تک میں حرج نہیں۔ اور جو ٹخنے سے کپڑا نیچے ہے وہ آگ میں ہے اور جس نے فخر سے کپڑا گھسیٹا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے نہیں دیکھے گا‘‘
(ابو داود۔ اللباس، باب فی قدر موضع الازار 4093)
یہ حدیث دو الگ اعمال کی الگ سزائیں بیان کرتی ہے:
بغیر تکبر کے کپڑا ٹخنوں سے نیچے رکھنے پر جہنم کی وعید۔
تکبر سے کپڑا گھسیٹنے پر اللہ کی ناراضگی۔
عورتوں کے لیے شادی بیاہ میں حد سے زیادہ کپڑا لٹکانا ناجائز ہے کیونکہ اس میں اسراف اور غیر مسلموں کی مشابہت شامل ہے۔
جنسِ مخالف کی مشابہت:
مرد یا عورت کا ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنا حرام اور لعنت کا سبب ہے۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت کرتی ہیں اور ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں لعنت فرمائی ہے‘‘
(بخاری۔ اللباس۔ باب المتشبھون بالنساء و المتشبھات بالرجال 5885)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورت پر جو مردوں کا لباس پہنتی ہے اور ایسے مردوں پر جو عورتوں کا لباس پہنتے ہیں لعنت فرمائی ہے‘‘
(ابو داود: اللباس، باب: فی لباس النساء 4098)
یہ مشابہت حرکات، لباس، انداز گفتگو یا دیگر طور طریقوں میں ہو سکتی ہے۔ شریعت میں جس عمل پر لعنت کی گئی ہو، وہ کبیرہ گناہ ہوتا ہے۔
جعلی حسن پیدا کرنا (مصنوعی خوبصورتی):
ایسے اعمال جن سے قدرتی خدوخال میں تبدیلی کی جائے، شریعت میں سختی سے منع ہیں۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’اللہ تعالیٰ کی لعنت ان عورتوں پر جو اپنے حسن کے لیے رنگ گوندھیں اور رنگ گوندھوائیں، پلکوں کے بال اکھیڑیں یا اکھڑوائیں اور خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان فاصلہ کریں (یہ کام) ان عورتوں کا شیوہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بدلنا چاہتی ہیں‘‘
(بخاری۔ اللباس باب المتفلجات للحسن 5931، مسلم: اللباس والزینہ۔ باب تحریم فعل الواصلۃ 2125)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’اللہ کی لعنت ہے اضافی بال لگوانے اور لگانے والی پر، اور (خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے) جسم پر رنگ بھرنے اور بھروانے والی پر‘‘
(بخاری 5933)