سوال
عرض یہ ہے کہ قومی تقریبات کے آغاز یا اختتام پر قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے، جس کا احترام قومی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے اسکول میں بھی پڑھائی کے آغاز میں دعا ہوتی ہے، جس کے آخر میں قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے، اور اس کے ادب و احترام میں ہر فرد کو بے حس و حرکت کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ قومی قانون کے تحت اس طریقے کے ساتھ احترام بجا لانا فرض قرار دیا گیا ہے۔
راقم الحروف اپنی سوچ کے مطابق ایسا نہیں کرتا، جس کی وجہ سے اسکول میں کافی تنازع پیدا ہو چکا ہے۔ قائلین کا کہنا ہے کہ یہ قومی فریضہ اور قومی قانون ہے، لہٰذا یہ قرآن و سنت سے متصادم نہیں۔
براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں اس عمل کے جواز یا عدم جواز کی وضاحت فرما دیں۔ اگر مجبوری میں ایسا کرنا پڑے تو کیا یہ عقیدۂ توحید کے منافی ہوگا؟
محمد ایوب خالد جھبراں
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ جانتے ہیں کہ تلاوتِ قرآن مجید کا شریعت میں کیا بلند مقام و مرتبہ ہے، اسی طرح آپ خطبۂ جمعۃ المبارک کے آداب سے بھی واقف ہیں۔ لیکن شریعت میں نہ تلاوتِ قرآن کے دوران اور نہ ہی خطبہ کے وقت کوئی ایسا طریقہ مقرر ہے جو ترانے والے طریقے سے مشابہ ہو۔
قومی ترانے کے دوران اس طرح بے حس و حرکت کھڑا ہونا غیر مسلم قوموں کی نقالی ہے۔ غیر مسلم اقوام کے اس مخصوص طریقے کو "قومی فریضہ” یا "قومی قانون” قرار دینا سراسر ناجائز ہے۔
مزید یہ کہ محض تعظیم و توقیر کی نیت سے کھڑا ہونا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے لیے بھی درست نہیں۔ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے، حتیٰ کہ نماز، جس میں قیام فرض ہے، ایک موقع پر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ اس دوران صحابہ کرام رضوان الله علیھم اجمعین نماز میں آپ کی اقتداء کرتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے نماز کے دوران ہی اشارہ سے انہیں بٹھا دیا۔ حالانکہ ان کا قیام ترانے والے قیام کی نوعیت کا نہیں تھا، بلکہ نماز کا ایک فرض تھا۔
لہٰذا آپ خود غور کریں کہ جب نماز میں بھی ایسی صورت میں قیام کو درست نہیں سمجھا گیا تو پھر قومی ترانے کے دوران ادب و احترام کی غرض سے بے حس و حرکت کھڑا ہونا کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب