سوال:
قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانا کیسا ہے؟
جواب:
قنوت میں ہاتھ اٹھانا جائز ہے۔ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جماعت کروا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفیں چیرتے آگے آئے، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پیچھے ہٹنا چاہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر کھڑے رہیں:
رفع أبو بكر رضى الله عنه يديه، فحمد الله على ما أمره به رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك.
”سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ اٹھائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا کردہ منصب پر اللہ کی حمد بیان کی۔“
(صحيح البخاري: 684، صحيح مسلم: 421)
معلوم ہوا کہ کسی بھی نماز میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا مشروع اور جائز ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ سے قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت ہے، قنوت تو قنوت ہی ہے، وتروں میں ہو یا نازلہ میں۔
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما صلى الغداة رفع يديه، فدعا عليهم.
”میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی فجر پڑھتے، ہاتھ اٹھا کر قبیلہ رعل و ذکوان پر بددعا کرتے۔“
(مسند الإمام أحمد: 137/3، وسنده صحيح)
اس روایت کو امام ابو عوانہ رحمہ اللہ (7443) نے ”صحیح “کہا ہے۔
❀ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رفع يديه فى قنوته فى الوتر.
”قنوت وتر کرنے والا اس میں ہاتھ اٹھائے۔“
(مسائل أحمد برواية عبد الله، ص 90، مسئلة: 319)
❀ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔
(مسائل الإمام أحمد وإسحاق بن راهويه برواية الكوسج: 649/2)
سلف صالحین میں کوئی ثقہ امام قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے خلاف نہیں۔