سوال
پاکستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں مسلمانوں پر ظلم و ستم، جنگ و جدل کا سلسلہ جاری ہے، اور ان حالات کے پیش نظر جہاد کا عمل بھی جاری ہے۔ ان مظالم کے خلاف اور مجاہدین کی مدد کے لیے کفار کے خلاف مساجد میں قنوت نازلہ پڑھی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ طریقہ درست ہے؟
ایک صاحب کا کہنا ہے کہ یہ درست نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے صرف ایک مہینہ قنوت نازلہ پڑھی، وہ بھی ایک خاص موقع پر۔ بعد میں آپ ﷺ نے جنگیں کیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی جنگیں کیں، لیکن کہیں بھی قنوت نازلہ پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات درست ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بئر معونہ کے شہداء کے قاتلین کے خلاف ایک مہینہ تک قنوت نازلہ پڑھی، لیکن یہ بھی واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ سے قنوت نازلہ اور قنوت غیر نازلہ دونوں کا عمل مختلف مواقع پر ثابت ہے۔
✿ صحیح بخاری: کتاب التفسیر، باب لیس لک من الامر شیء
✿ صحیح مسلم: کتاب المساجد، باب استحباب القنوت فی جمیع الصلوٰت
✿ ابوداؤد: ابواب الوتر، باب القنوت فی الصلوٰت
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ:
◈ قنوت نازلہ صرف ایک خاص واقعہ تک محدود نہیں تھی۔
◈ قنوت نازلہ مختلف مواقع پر پڑھی گئی اور اس کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔
◈ یہ عمل سنت سے ثابت ہے اور موجودہ حالات میں، جب مسلمان ظلم و ستم کا شکار ہوں، اور مجاہدین حق پر ہوں، تو ان کے لیے قنوت نازلہ پڑھنا جائز بلکہ پسندیدہ عمل ہے۔
البتہ، کبھی کبھار اس کو ترک کر دینا (ناغہ کر لینا) بھی درست ہے تاکہ قنوت نازلہ کا التزام لازم نہ ہو جائے اور سنت کی موافقت باقی رہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب