حاکم کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی ایسے شخص کو قاضی بنائے (جو اسے طلب کرتا ہو) اور جو شخص قضا کا اہل ہو وہ سخت خطرے میں ہے
حضرت ابو موسٰی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرے چچا کی اولاد سے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے ۔ ان میں سے ایک نے عرض کیا:
يا رسول الله أمرنا على بعض ما ولاك الله عزو جل
”اے اللہ کے رسول ! ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ولایت سے کچھ حصے کا امیر بنا دیجیے ۔“
پھر دوسرے نے بھی اسی طرح کی بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنا والله لا نولى هذا العمل أحدا يسأله أو أحدا حرص عليه
”بے شک اللہ کی قسم ہم اس کام (حکومت) پرکسی ایسے شخص کو والی نہیں بنائیں گے جو اس کا طلبگار یا حریص ہو ۔“
[بخارى: 7149 ، كتاب الأحكام: باب ما يكره من الحرص على الإمارة ، مسلم: 1733]
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من جعـل قـاضيـا بين الناس فقد ذبح بغير سكين
”جسے لوگوں کے مابین قاضی بنا دیا گیا وہ (ایسے ہی ہے جیسے ) بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا ۔“
[صحيح: صحيح الجامع الصغير: 6190 ، احمد: 23/2 ، ابو داود: 3571 ، كتاب الأقضية: باب فى طلب القضاء ، ابن ماجة: 2308 ، ترمذي: 1325 ، حاكم: 91/4 ، بيهقي: 96/10 ، دارقطني: 204/4 ، ابن حبان: 1375]
➋ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله مع القاضى ما لم يجر فإذا جار وكـلـه إلى نفسه
”جب تک قاضی ظلم نہ کرے اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتے ہیں لیکن جب وہ ظلم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے نفس کے سپرد کر دیتے ہیں ۔
اور جامع ترمذی میں یہ لفظ ہیں:
فإذا جـار تخلى عنه ولزمه الشيطان
”جب قاضی ظلم کرتا ہے تو اللہ تعالی اس سے الگ ہو جاتے ہیں اور شیطان اسے چمٹ جاتا ہے ۔“
[حسن: صحيح ابن ماجة: 1870 ، كتاب الأحكام: باب التغليظ فى الحيف والرشوة ، ابن ماجة: 2312 ، ترمذي: 1330 ، حاكم: 93/4 ، بيهقي فى السنن الكبرى: 88/10 ، ابن حبان: 1540 – الموارد]
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لتأتين على القاضي العدل يوم القيامة ساعة يتمنى أنه لم يقض بين اثنين فى تمرة قط
”عادل قاضی پر بھی قیامت کے دن ایک ایسا لمحہ لازما آئے گا جس سے وہ تمنا کرے گا کہ (کاش! ) اس نے کبھی بھی دو افراد کے درمیان ایک کھجور کے معاملے میں بھی فیصلہ نہ کیا ہوتا ۔“
[احمد: 75/6 ، مجمع الزوائد: 195/4]
➍ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے عامل بنا دیجیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
إنك ضعيف وإنها أمانة وإنها يوم القيامة خزى وندامة إلا من أخذها بحقها وأدى الذى عليه فيها
”بلاشبہ تم کمزور ہو اور یہ امانت ہے اور یقیناََ یہ قیامت کے دن رسوائی اور ندامت کا باعث ہو گی اِلا کہ جس نے اس کا حق ادا کیا اور جو بھی اس کی ذمہ داری تھی اسے مکمل طور پر ادا کیا ۔ “
[مسلم: 1825 ، كتاب الإمارة: باب كراهة الإمارة بغير ضرورة ، احمد: 173/5]
(نوویؒ) ولایت و حکومت سے اجتناب کے متعلق یہ حدیث ایک بہت بڑی دلیل ہے ۔
[شرح مسلم: 450/6]