سوال
قضا نماز کتنی پڑھی جائے؟ کیا سنتوں کی بھی قضا ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات واضح رہے کہ سنتوں کی قضا مشروع، جائز بلکہ افضل ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ لَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَيِ الفَجْرِ فَلْيُصَلِّهِمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ»
رواہ الترمذی وقال حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الوَجْهِ. وأخرجه ابن ھبان فی صحیحه والحاکم فی المستدرک وقال حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ والدار قطنی والبیھقی۔
(نیل الاوطار: ص۲۸،۲۹ج۳)
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص فجر کی سنتیں ادا نہ کرسکے، وہ سورج چڑھنے کے بعد پڑھ لے۔‘‘
امام شوکانی کی وضاحت
امام شوکانی فرماتے ہیں:
الحدیث لا یدل صریحا علی أن من ترکھا قبل صلوة الصبح لا یفعلھا الا بعد طلوع الشمس ولیس فیه الا الأمر لمن لم یصلھما مطلقا۔ ان یصلیھا بعد طلوع الشمس۔
(نیل الاوطار: ص۲۹)
یعنی حدیث میں یہ تصریح نہیں ہے کہ جو شخص صبح کی سنتیں صبح کی فرض نماز سے پہلے نہ پڑھ سکے، وہ انہیں سورج نکلنے سے پہلے بھی نہ پڑھے۔ بلکہ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے وہ سنتیں فرض سے پہلے یا بعد میں طلوع شمس سے پہلے نہ پڑھ سکا تو سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے۔
ابن حزم اور عموم حدیث سے استدلال
ابن حزم فرماتے ہیں:
وَفِي الْحَدِيثِ مَشْرُوعِيَّةُ قَضَاءِ النَّوَافِلِ الرَّاتِبَةِ، وَظَاهِرُهُ سَوَاءٌ فَاتَتْ لِعُذْرٍ، أَوْ لِغَيْرِ عُذْرٍ
یعنی اس حدیث سے سنتوں (نوافل راتبہ) کی قضا کا مشروع ہونا ثابت ہوتا ہے، چاہے وہ کسی عذر سے رہ جائیں یا بلاعذر رہ جائیں۔
اس مسئلے میں علماء کے اقوال
علماء کے درمیان اس مسئلے میں پانچ اقوال پائے جاتے ہیں:
پہلا قول:
◈ سنن رواتب کی قضا مستحب ہے۔
◈ چاہے کسی عذر سے رہ جائیں یا بلاعذر۔
◈ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے قضا کا مطلق حکم دیا ہے، اسے عذر کے ساتھ مقید نہیں کیا۔
◈ اس پر صحابہ میں سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، تابعین میں سے عطاء، طاووس، قاسم بن محمد اور ائمہ میں ابن جریج، اوزاعی، امام شافعی (جدید قول کے مطابق)، امام احمد، اسحاق، محمد بن حسن اور مزنی کا موقف ہے۔
دوسرا قول:
◈ سنن کی قضا نہیں کی جائے گی۔
◈ یہ قول امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام ابو یوسف (مشہور روایت کے مطابق)، امام شافعی (قول قدیم) اور امام احمد کی ایک روایت کا ہے۔
◈ تاہم امام مالک کا مشہور قول یہ ہے کہ صرف فجر کی سنتوں کی قضا سورج نکلنے کے بعد کی جائے گی۔
تیسرا قول:
◈ صرف ان نمازوں کی قضا دی جائے گی جو مستقل ہیں جیسے نمازِ عید اور نمازِ ضحیٰ۔
◈ لیکن سنن رواتب کی قضا نہیں ہوگی۔
◈ یہ امام شافعی کا ایک قول ہے۔
چوتھا قول:
◈ قضا کرنا اور نہ کرنا دونوں درست ہیں (تخییر ہے)۔
◈ یہ موقف امام مالک اور اصحاب الرائے کا ہے۔
پانچواں قول:
◈ اگر سنتیں کسی عذر یا بھول کی وجہ سے رہ جائیں تو ان کی قضا کی جائے گی۔
◈ لیکن اگر جان بوجھ کر چھوڑ دی جائیں تو قضا نہیں ہے۔
◈ یہ قول ابن حزم کا ہے، جنہوں نے عمومی حدیث "مَنْ نَامَ عَنْ صَلَاتِهِ” سے استدلال کیا ہے۔
◈ البتہ جمہور علماء کے نزدیک اگر سنتیں جان بوجھ کر چھوڑی جائیں تو ان کی قضا اور بھی زیادہ ضروری ہے۔
(نیل الاوطار: ص۳۰ج۳، المحلی لابن حزم ج۲ص۲۳۵)
خلاصہ
اس حدیث کی روشنی میں سنن رواتب (موکدہ) کی قضا مشروع اور جائز ہے، چاہے وہ کسی عذر سے رہ جائیں یا بلاعذر۔ البتہ علماء کے درمیان اس مسئلے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں جن میں سے پہلا قول (قضا مستحب ہے) جمہور کے نزدیک راجح ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب