قضائے عمری کا کیا حکم ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

قضائے عمری کا کیا حکم ہے؟

جواب:

رمضان میں جمعۃ الوداع کے موقع پر ایک بدعت تراش لی گئی ہے، اسے قضائے عمری کہتے ہیں۔ بعض نے نماز ایجاد کر کے اس کے ثبوت میں ایک حدیث بھی گھڑ ڈالی۔ ائمہ محدثین کے عقیدہ و عمل کے خلاف اپنا مذہب ایجاد کیا۔ علمائے امت کے متفقہ فہم اور اجماع کے مقابلہ میں فرد واحد کا فہم دین قرار دینے والوں نے اسلام میں رخنہ اندازی کی قبیح مثال قائم کی۔ قضائے عمری بھی اسی قبیل سے ہے۔ قضائے عمری اسلام میں نہیں تھی، خدا جانے کس نے گھڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دی، کار پردازان تقلید اسے لے اڑے اور جم گئے کہ ہمارے علما نے لکھی ہے، کوئی تو دلیل ہوگی۔
❀ علامه ملاعلی قاری حنفی رحمہ اللہ (1014ھ) لکھتے ہیں:
”حدیث: ”جس نے رمضان کے آخری جمعہ کو قضا نماز پڑھی، یہ اس کی عمر کے ستر برس تک فوت ہونے والی تمام نمازوں کا کفارہ ہوگی، قطعی باطل ہے، کیونکہ اجماع سے ثابت ہے کہ فوت شدہ عبادات کی کمی پوری نہیں ہو سکتی اور یہ اس اجماع کے مخالف ہے، دوسرے یہ کہ صاحب ہدایہ اور شارحین ہدایہ کی نقل غیر معتبر ہے، یہ لوگ نہ تو خود محدث تھے، نہ انہوں نے روایت کی نسبت کسی محدث کی طرف کی ہے۔“
(الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة، ص 356، ح: 519)
❀ علامہ شوکانی رحمہ اللہ (1250ھ) لکھتے ہیں:
”اس حدیث کے من گھڑت ہونے میں کوئی دوسری رائے ہی نہیں۔ یہ تو موضوعات پر لکھی کتابوں میں بھی نہیں پائی جاتی، اس دور میں فقیہان صنعاء کے ہاں مشہور ہو چکی ہے۔ وہ کثیر تعداد میں اس پر عامل ہیں، میں نہیں جانتا اسے کس نے گھڑا؟ بہر کیف اللہ جھوٹوں کو برباد کرے۔“
(الفوائد المجموعة، ص 54، ح: 115)
فوت شدہ نمازوں پر توبہ ہے۔ قضائے عمری نامی کسی نماز کا اسلام میں وجود نہیں، لہذا اس بدعت سے خود بھی بچیں اور لوگوں کو بھی آگاہ کریں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے