قضائے حاجت کے وقت نماز باجماعت چھوڑنے کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

اگر کسی شخص کو قضائے حاجت (پیشاب یا پاخانہ) کی حاجت ہو اور اسے اندیشہ ہو کہ اگر وہ پہلے حاجت پوری کرے گا تو نماز باجماعت چھوٹ جائے گی، تو ایسی صورت میں کیا وہ حاجت کو روکے رکھے اور نماز باجماعت ادا کرے یا پہلے قضائے حاجت کرے خواہ جماعت فوت ہو جائے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسی حالت میں انسان کو چاہیے کہ:

پہلے قضائے حاجت کرے
◈ پھر وضو کر کے نماز ادا کرے
◈ اگرچہ نماز باجماعت فوت ہو جائے

اس لیے کہ اس صورت میں نماز باجماعت ترک کرنا شرعی عذر کے تحت آتا ہے۔

حدیثِ نبوی ﷺ کی روشنی میں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لَا صَلٰوةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ»
(صحیح مسلم، المساجد، باب کراهة الصلاة بحضرة الطعام، حدیث: ۵۶۰)

ترجمہ:
"کھانے کی موجودگی میں نماز نہیں اور نہ اس وقت جب کہ بول و براز اس سے مزاحمت کررہے ہوں۔”

(مراد یہ ہے کہ اسے قضائے حاجت کی حاجت لاحق ہو تو ایسی حالت میں نماز ادا نہ کرے۔)

نتیجہ:

لہٰذا، جب کسی شخص کو شدید حاجت ہو تو اسے نماز سے قبل قضائے حاجت کر لینی چاہیے تاکہ وہ سکون و اطمینان کے ساتھ نماز ادا کر سکے۔ ایسی حالت میں جماعت کا فوت ہو جانا ایک قابل قبول شرعی عذر ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1