سوال
اگر عشاء کی نماز رہ جائے اور فجر کی نماز کا وقت شروع ہو چکا ہو تو کیا فجر کی نماز ادا کرنے کے فوراً بعد (یعنی سورج طلوع ہونے سے پہلے) عشاء کی قضاء نماز ادا کی جا سکتی ہے یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر عشاء کی نماز کسی وجہ سے چھوٹ گئی ہو اور فجر کا وقت شروع ہو چکا ہو تو سب سے پہلے عشاء کی نماز قضاء کی جائے، اس کے بعد فجر کی نماز ادا کی جائے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان (صحیح مسلم):
«لَیْسَ فِی النَّوْمِ تَفْریْطٌ إِنَّمَا التَّفْرِیْطُ فِی الْیَقَظَةِ، فَإِذَا نَسِیَ أَحَدُکُمْ صَلاۃً أَوْ نَامَ عَنْہَا فَلْیُصَلِّہَا إِذَا ذَکَرَہَا فَإِنَّ اﷲَ تَعَالٰی قَالَ : وَأَقِمِ الصَّلاَۃَ لِذِکْرِیْ»
(صحیح مسلم ۔ کتاب المساجد باب قضاء الصلوۃ الفائتة)
یعنی:
"نیند میں کوتاہی نہیں، کوتاہی صرف بیداری میں ہے۔ پس جب تم میں سے کسی کی نماز رہ جائے یا نیند کی وجہ سے چھوٹ جائے تو جب اسے یاد آئے، نماز پڑھ لے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ‘میری یاد کے لیے نماز قائم کرو'”۔
غزوۂ احزاب کے موقع پر نبی کریم ﷺ کا عمل:
غزوۂ احزاب کے موقع پر نبی ﷺ کی عصر اور مغرب کی دو نمازیں رہ گئی تھیں، اور عشاء کا وقت آ چکا تھا، تو آپ ﷺ نے ترتیب سے:
◈ پہلے عصر کی نماز ادا کی
◈ پھر مغرب کی نماز پڑھی
◈ پھر عشاء کی نماز ادا فرمائی
یہ واضح کرتا ہے کہ جو نماز رہ گئی ہو، اسے یاد آنے پر اسی ترتیب سے قضاء کرنا چاہیے۔
ممنوعہ اوقات میں نماز کے احکام:
◈ فجر کے بعد طلوعِ آفتاب تک کوئی نماز نہیں پڑھی جانی چاہیے۔
◈ عصر کے بعد غروبِ آفتاب تک بھی نماز ادا کرنا منع ہے۔
لیکن یہ ممانعت نفل نماز کے بارے میں ہے، یعنی ایسی نفل نماز جو بغیر کسی سبب کے پڑھی جائے۔
لہٰذا:
◈ اگر کوئی فرض نماز چھوٹ گئی ہو تو اس کی قضاء ان اوقات میں بھی کی جا سکتی ہے۔
◈ یہ عمل نفل نماز کی ممانعت سے متعلق احادیث کے منافی نہیں، کیونکہ وہ احادیث بلاجہ نفل نماز کے بارے میں ہیں، نہ کہ قضاء فرض نماز کے بارے میں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب