قسم پر مبنی طلاق کے وقوع کا شرعی حکم – فتاویٰ محمدیہ کی روشنی میں
ماخوذ: فتاویٰ محمدیہ، ج 1، ص 830

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ دو فریقوں کے درمیان لڑکی کے اغوا کے معاملے پر اختلاف پیدا ہوا۔ جس فریق کے لڑکے پر لڑکی اغوا کرنے کا الزام تھا، انہوں نے الٹا لڑکی والوں پر اپنے لڑکے کو روپوش کرنے کا دعویٰ دائر کر دیا۔ بعد ازاں لڑکے والوں کو ایک لاش ملی جو ان کے لڑکے سے مشابہت رکھتی تھی، چنانچہ انہوں نے گمان کیا کہ یہ انہی کے بیٹے کی لاش ہے اور اسے دفن کر دیا، پھر لڑکی والوں پر قتل کا مقدمہ قائم کر دیا۔

تحقیقات کے دوران تفتیشی افسر نے لڑکے والوں سے کہا کہ اگر واقعی تمہارا لڑکا قتل ہو چکا ہے تو قسم کھانے کے بجائے اپنی عورتوں کو طلاق دے کر اپنے دعوے کی سچائی ثابت کرو۔ اس پر انہوں نے اپنی بیویوں کو تین طلاقیں دے کر یقین دلایا۔ بعد ازاں تفتیشی افسر نے ان کا وہی لڑکا زندہ برآمد کر کے مدعی پارٹی کے سامنے پیش کر دیا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا شرعاً وہ طلاقیں واقع ہو چکی ہیں یا نہیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے، مذکورہ صورت میں دو وجوہ کی بنیاد پر طلاق واقع ہو چکی ہے۔

اول: ظنِ غالب کی بنیاد پر طلاق کا وقوع

◈ طلاق دینے والوں نے اپنے لڑکے کی گمشدگی اور بعد ازاں اس سے مشابہت رکھنے والی لاش کے ملنے پر غالب گمان بلکہ یقین کر لیا کہ لڑکی والوں نے اپنے آپ کو بےگناہ ظاہر کرنے کے لیے ان کے لڑکے کو قتل کر دیا ہے۔
◈ اس یقین کے تحت انہوں نے ارادتاً طلاقیں دے ڈالیں تاکہ ان کا دعویٰ قتل مضبوط ہو جائے۔
◈ شرعی لحاظ سے بعض معاملات میں ظنِ غالب (غالب گمان) کو حجت اور معتبر دلیل سمجھا جاتا ہے۔

مثلاً:
◈ اگر نماز کے دوران قبلہ کی صحیح سمت معلوم نہ ہو تو انسان غالب گمان کی بنیاد پر جس سمت کو درست سمجھے، اسی طرف نماز پڑھ سکتا ہے، اور بعد میں جہت معلوم ہونے پر نماز دہرانے کی ضرورت نہیں۔
◈ اسی طرح سجدہ سہو کا حکم بھی ظنِ غالب پر ہی مبنی ہوتا ہے۔

پس ان مثالوں سے واضح ہے کہ طلاق بھی ظنِ غالب کے تناظر میں واقع ہو جاتی ہے۔

ثانی: طلاق کی دو بنیادی اقسام

طلاق کی دو اقسام ہیں:

طلاقِ منجّز (تنجیر)
✿ یہ طلاق نہ کسی شرط سے معلق ہوتی ہے، نہ مستقبل پر موقوف۔
✿ شوہر کا مقصد فی الفور طلاق کا وقوع ہوتا ہے۔
✿ مثال: اگر شوہر کہے "أنتِ طالق” تو طلاق اسی وقت شرعاً نافذ ہو جاتی ہے۔

طلاقِ معلّق (تعلیق)
✿ یہ طلاق کسی شرط کے ساتھ معلق اور مشروط ہوتی ہے۔
✿ مثال: اگر شوہر کہے "إن ذهبتِ إلى مكان كذا فأنتِ طالق” یعنی "اگر تم فلاں جگہ گئی تو طلاق۔”

طلاقِ معلّق کے وقوع کے لیے تین شرطیں ہیں:
➊ شرط کسی ایسے امر پر ہو جو فی الحال موجود نہ ہو۔
➋ طلاق کے صدور کے وقت بیوی شوہر کی عصمت میں ہو۔
➌ شرط کے پورا ہونے کے وقت بھی بیوی طلاق کے محل میں ہو۔

طلاقِ معلّق کی مزید دو اقسام

التعلیق القسمی (قسم نما تعلیق)
✿ اس کا مقصد کسی فعل سے روکنا، کسی بات پر تاکید کرنا یا کسی عمل پر آمادہ کرنا ہوتا ہے۔
✿ مثال: اگر شوہر کہے "اگر تم باہر نکلی تو تمہیں طلاق” لیکن اس کا ارادہ حقیقتاً طلاق دینا نہ ہو بلکہ بیوی کو روکنا ہو۔

التعلیق الشرطی (شرطی تعلیق)
✿ اس میں شرط کے پورا ہونے پر طلاق کا وقوع مقصود ہوتا ہے۔
✿ مثال: اگر شوہر کہے "اگر تم نے میرا مہر معاف نہ کیا تو تمہیں طلاق”۔

صورتِ مسئلہ کی نوعیت

میرے ناقص فہم کے مطابق مذکورہ معاملہ التعلیق القسمی کے تحت آتا ہے۔
اور یہ بات واضح ہے کہ جمہور علماء کے نزدیک طلاق کی دونوں اقسام واقع ہو جاتی ہیں۔

ائمہ کے اقوال

الشیخ محمد سابق المصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"وھذا التعلیق بنوعیه واقع عند جمھور العلماء.”
(فقه السنة، ج 2، ص 222-223)

امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"معلق طلاق واقع ہی نہیں ہوتی۔ شیخین کے نزدیک التعلیق القسمی واقع نہیں ہوتی بلکہ اس میں کفارۂ یمین واجب ہوتا ہے، البتہ التعلق الشرطی ان کے نزدیک بھی واقع ہو جاتی ہے۔”
(فقہ السنۃ، ج 2، ص 223)

تحقیقات اور شرعی پہلو

تفتیشی افسر نے یہ سمجھا کہ بعض لوگ جھوٹی قسمیں کھا لیتے ہیں اور بعد میں کفارہ ادا کر کے توبہ کر لیتے ہیں۔
اس لیے اس نے حقیقت جانچنے کے لیے قسم کے بجائے طلاق پر مبنی یقین دہانی کا طریقہ اختیار کیا، کیونکہ عام لوگ جھوٹی قسم تو کھا لیتے ہیں لیکن اپنا گھر اجاڑنا (بیوی کو طلاق دینا) آسان نہیں سمجھتے۔

یوں انہوں نے اپنے غالب گمان کی بنیاد پر یہ کہہ دیا کہ

"اگر لڑکی والوں نے ہمارا لڑکا قتل نہ کیا ہو تو ہماری بیویاں طلاق۔”

بعد ازاں جب لڑکا زندہ برآمد ہوا اور ان کے سامنے پیش کیا گیا، تو انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ واقعی ان کا ہی لڑکا ہے۔
لہٰذا شرط پوری ہو گئی، اور جمہور علماء کے نزدیک طلاق واقع ہو چکی ہے۔

البتہ امام ابن قیم اور امام ابن حزم کے نزدیک ایسی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

خلاصۂ حکم

✿ جمہور فقہاء کے نزدیک مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہو گئی۔
✿ لیکن امام ابن قیم اور ابن حزم رحمہما اللہ کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوئی۔

ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے