قسم صرف اللہ کے نام کی یا اس کی صفت کی اٹھائی جا سکتی ہے
لغوی وضاحت: لفظِ أيمان یمین کی جمع ہے ۔ اس کا معنی ”قسم ، قوت اور دایاں ہاتھ“ مستعمل ہے۔
[المنجد: ص/ 1037 ، لسان العرب: 457/15]
اصطلاحی تعریف: ایسے مضبوط عقد کا نام ہے جس کے ذریعے حالف کسی فعل کے کرنے یا اسے چھوڑنے کا عزم کرتا ہے ۔
[المبسوط: 126/8 ، فتح القدير: 2/4 ، تبيين الحقائق: 106/3]
مشروعیت: اللہ تعالیٰ نے خود بھی قسم اٹھائی ہے اور اپنے نبی کو بھی اس کا حکم دیا ہے ۔
➊ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ [الليل: 1]
”رات کی قسم جب وہ ڈھانپ لے ۔“
➋ وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا [الشمس: 1]
”قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی ۔“
➌ وَالْفَجْرِ - وَلَيَالٍ عَشْرٍ [الفجر: 1 – 2]
”قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی ۔“
➍ وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ [التين: 1]
”قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی ۔“
➎ وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا [النازعات: 1]
”ڈوب کر سختی سے کھینچنے والوں کی قسم .“
اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین مقامات پر قسم کا حکم دیا ہے:
➊ قُلْ إِي وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقٌّ ۖ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ [يونس: 53]
”آپ فرما دیجیے کہ ہاں قسم ہے میرے رب کی وہ واقعی سچ ہے اور تم کسی طرح اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے ۔“
➋ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ [سبا: 3]
”آپ کہہ دیجیے! کہ مجھے میرے رب کی قسم وہ یقیناََ تم پر آئے گی ۔“
➌ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [التغابن: 7]
”آپ کہہ دیجیے! کہ کیوں نہیں اللہ کی قسم! تم ضرور دوبارہ اٹھائے جاؤ گے ۔“
➊ مشرکین قیامت کے روز یوں کہیں گے:
وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ [الأنعام: 23]
”قسم اللہ کی اپنے پروردگار کی! ہم مشرک نہیں تھے ۔“
➋ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان الفاظ میں قسم اٹھائی تھی:
وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ [الأنبيا: 57]
”اور اللہ کی قسم میں تمہارے ان معبودوں کے ساتھ ، جب تم علیحدہ پیٹھ پھیر کر چل دو گے ایک چال چلوں گا ۔“
➌ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ [فاطر: 42]
”اور ان کفار نے اللہ تعالیٰ کی بڑی زور دار قسم اٹھائی تھی ۔“
➍ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فمن كان حالفا فليحلف بالله
”پس جو قسم اٹھانا چاہے تو اللہ کی قسم اٹھائے ۔“
[بخاري: 6646 ، كتاب الأيمان والنذور: باب لا تحلفوا بآ بائكم]
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :
كانت يمين النبى صلى الله عليه وسلم: لا و مقلب القلوب
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان الفاظ میں قسم اٹھاتے تھے
لَا وَمُقَلْبَ الْقُلُوبِ “
[بخاري: 6628 ، كتاب الأيمان والنذور: باب كيف كانت يمين النبي]
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قسم کے یہ الفاظ بھی ثابت ہیں:
والذي نفسي بيده
”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔“
[6629 ، أيضا]
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے جنت اور جہنم کو پیدا فرمایا تو جبرئیل علیہ السلام کو جنت کی طرف روانہ فرمایا اور کہا کہ جنت اور اس میں رہنے والوں کے لیے جو میں نے تیار کیا ہے اسے دیکھو ۔ جب جبرئیل علیہ السلام دیکھ کر واپس لوٹے تو انہوں نے کہا:
وعزتك لا يسمع بها أحد إلا دخلها
”تیری عزت کی قسم! جو بھی اس کے متعلق سن لے گا وہ تو اس میں داخل ہو کر رہے گا ۔“
[حسن صحيح: صحيح نسائي: 3523 ، كتاب الأيمان والنذور: باب الحلف بعزة الله ، نسائي: 3794 ، ابو داود: 4744]
اس کے علاوہ کسی کی قسم اٹھانا حرام ہے
دور جاہلیت میں مشرکین اپنے شرکاء و معبودانِ باطلہ کی قسمیں کھاتے تھے ۔
[الروضة الندية: 356/2]
اسلام نے اس سے روک دیا ۔
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے والد کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمايا:
إن الله يـنـهــا كـم أن تحلفوا بآبائكم فمن كان حالفا فليحلف بالله أو ليصمت
”بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہارے والدین کی قسم کھانے سے منع فرمایا ہے جو قسم کھانا چاہے تو اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے ۔“
[بخارى: 6108 ، كتاب الأدب: باب من لم ير إكفار من قال ذلك متأولا أو جاهلا ، مسلم: 1646 ، احمد: 11/2 ، ابو داود: 2349 ، ترمذي: 1534 ، مشكل الآثار: 355/1 ، ابن ماجة: 2094 ، دارمي: 175/2 ، بيهقى: 29/10 ، مؤطا: 480/2 ، شرح السنة: 3/10 ، الحليلة لأبي نعيم: 160/9 ، حميدي: 686]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من حلف بـغـيـر الـلـه فقد أشرك ، وفي رواية ، فقد كفر
”جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم اٹھائی یقیناََ اس نے شرک کیا ۔“
اور ایک روایت میں کہ ”پس یقیناََ اس نے کفر کیا ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2787 ، كتاب الأيمان والنذور: باب كراهية الحلف بالآباء ، ابو داود: 3251 ، ترمذى: 1535 ، حاكم: 52/1 ، احمد: 34/2]
بعض حضرات نے یہ اشکال پیدا کیا ہے کہ ایک طرف تو غیر اللہ کی قسم اٹھانے کی ممانعت ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے خود غیر اللہ یعنی مخلوقات وغیرہ کی قسم اٹھائی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا [الشمس: 1]
”سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی قسم ۔“
اور ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی کے متعلق کہا:
أفلح و أبيه إن صدق
”اس کے باپ کی قسم ! وہ کامیاب ہو گیا اگر اس نے سچ کہا ہے ۔“
[مسلم: 11 ، كتاب الأيمان: باب بيان الصلوات التى هي أركان الإسلام]
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے:
➊ اس جیسی قسموں میں رب کا لفظ مضمر ہے جیسے وَرَبِّ الشَّمْسِ اور وَرَبِّ أَبِيهِ وغيره ۔
➋ ایسی قسمیں صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں ۔
➌ أفلح و أبيه کے الفاظ ثابت ہی نہیں بلکہ یہ لفظ ثابت ہیں:
أفلح والله إن صدق
جیسا کہ امام ابن عبدالبرؒ نے یہ وضاحت کی ہے ۔
➍ ممانعت ایسی قسم سے ہے جسے غیر اللہ کی تعظیم کی غرض سے اٹھایا جائے جب کہ وہ قسم ممنوع نہیں ہے جسے عرب لوگ کلام میں تاکید پیدا کرنے کے لیے اٹھایا کرتے تھے تاہم یہ مکروہ ضرور ہے کیونکہ غیر اللہ کی قسم سے ممانعت صحیح دلائل سے
ثابت ہے ۔
(راجح) آخری قول ہی راجح ہے ۔
[سبل السلام: 187/4 ، قفو الأثر: 1677/5 ، الروضة الندية: 357/2]