قسطوں پر خرید و فروخت کے احکام
قسطوں پر بیع
سوال: قسطوں پر بیع کے متعلق اسلام کی کیا رائے ہے جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ قسطوں پر خرید و فروخت کی صورت میں نرخ، نقد خرید و فروخت سے زیادہ ہوتا ہے؟
جواب اہل علم کے ا جماع کے ساتھ اس میں کوئی حرج نہیں کہ انسان اپنی ضرورت کی کوئی چیز ادھار خرید لے، پھر چاہے تو یکمشت ادائیگی کر دے یا مختلف قسطوں میں اسے ادا کر دے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کئی ایک اہل علم نے اس کے حلال ہونے پر علما کا اجماع نقل کیا ہے۔
یہ بھی معلوم ہے کہ اگر قسطوں پر خرید و فروخت ہو تو اس کی قیمت بھی زیادہ ہوگی کیونکہ فروخت کرنے والا ایسی کوئی چیز نہیں بیچے گا جس کی ادھار قیمت کسی چیز کی نقد قیمت کے برابر ہو۔ اس معاملے کا جائز ہونا شریعت اسلامی کے محاسن میں سے ہے کیونکہ فروخت کرنے والا زیادہ قیمت سے فائدہ اٹھاتا ہے تو خریدار اس کی قیمت ادھار ادا کرنے میں سہولت محسوس کرتا ہے لیکن اگر سودا نقدر طے ہوا ہو، پھر خریدار بائع کے پاس آئے اور اس سے کہے: قیمت میں اضافہ کر کے مجھے مہلت دے دو یعنی قیمت بڑھا کر مجھے ادھار دے دو، تو یہ جائز نہیں، کیونکہ یہ سود ہے، مثلاً بندے نے ایک گاڑی کسی کو دس ہزار میں بیچ دی، پھر خریدار کو دس ہزار نہ مل سکے اور اس نے بائع سے آکر کہا: دس ہزار کا انتظام نہیں ہو سکا لیکن تم مجھے یہ بارہ ہزار میں ادھار دے دو تو یہ جائز نہیں کیونکہ خریدار کے ذمے اس حالت میں دس ہزار ادا کرنے ثابت ہو چکے ہیں، اب ان میں مہلت کے بدلے میں اضافہ کرنا بعینہ سود ہے، لہٰذا یہ حرام ہوگا۔
[ابن عثیمين: نور على الدرب: 28/243]