قریب المرگ شخص کے متعلق احکام
تحریر: عمران ایوب لاہوری

قریب المرگ شخص کے متعلق احکام

لفظ جنائز جنازۃ کی جمع ہے جیم کے کسرہ کے ساتھ ، اس سے مراد میت ہے اور بعض نے جیم کے فتحہ کے ساتھ بھی یہی مراد لیا ہے یا کسرہ کے ساتھ میت اور فتحہ کے ساتھ وہ چار پائی مراد ہے جس پر میت ہو ۔ علاوہ ازیں ایک قول اس کے برعکس بھی ہے یعنی کسرہ کے ساتھ وہ چار پائی مراد ہے جس پر میت پڑی ہو۔ لفظ جنائز باب جنزَ يَجُزُ (ضرب) سے مشتق ہے جس کا معنی ”چھپانا“ مستعمل ہے۔ امام نوویؒ اور حافظ ابن حجرؒ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ کو ہی ثابت کیا ہے۔
[القاموس المحيط: ص / 456 ، نيل الأوطار: 660/2 ، شرح مسلم للنووى: 489/3 ، فتح الباري: 443/3]
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کا جواب دینا ، عيادة المريض ”مریض کی عیادت کرنا“ جنازے میں شرکت کرنا ، دعوت قبول کرنا ، جسے چھینک آئے اسے يرحمك الله کہنا۔ “
صحیح مسلم کی روایت میں چھ حقوق کا ذکر ہے اور ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ وإذا استنصحك فانصحه ”اور جب وہ خیر خواہی طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرو ۔“
[بخارى: 1240 ، كتاب الجنائز: باب الأمر باتباع الجنائز ، مسلم: 2162 ، كتاب السلام: باب من حق المسلم للمسلم رد السلام ، أبو داود: 5030 ، ابن ماجة: 1435 ، أحمد: 332/2 ، بيهقي: 386/3]
➋ حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عودوا المريض وأطعموا الجائع …
”مريض کی عیادت کرو اور بھوکے کو کھانا کھلاؤ ۔“
[بخاري: 7173 ، كتاب الأحكام: باب إجابة الحاكم الدعوة ، أبو داود: 3105 ، أحمد: 394/4]
➌ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میری آنکھ میں تکلیف تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت کی ۔
[حسن: صحيح أبو داود: 2659 ، كتاب الجنائز: باب فى العيادة من الرمد ، أحمد: 375/4 ، ابو داود: 3102 ، بخاري فى الأدب المفرد: 532 ، حاكم: 342/1]
➍ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ غزوہ احزاب کے روز زخمی ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا خیمہ مسجد میں لگوا دیا: ليعوده من قريب ”تاکہ قریب سے ان کی عیادت کر سکیں ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 2658 ، كتاب الجنائز: باب فى العيادة مرار ، أبو داود: 3101]
➎ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن المسلم إذا عاد أخاه المسلم لم يزل فى مخرفة الجنة حتى يرجع
”بلاشبہ جب مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو واپسی تک جنت کے باغیچے میں رہتا ہے۔“
[مسلم: 2568 ، كتاب البر والصلة والآداب: باب فضل عبادة المريض ، بخارى فى الأدب المفرد: 519 ، أحمد: 276/5 ، ترمذي: 967]
➏ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی مسلمان عیادت کی غرض سے اپنے مسلمان بھائی کے پاس بیٹھتا ہے ، اگر وہ صبح کو عیادت کرے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور اگر شام کو عیادت کرے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں۔
[صحيح: صحيح ترمذى: 775 ، الصحيحة: 1367 ، أبو داود: 3098 ، ابن ماجة: 1442]

عیادت کے وقت مریض کو دعا دینا

➊ حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی کسی مریض کی عیادت کے لیے آئے تو کہے: اللَّهُمَّ اشْفِ عَبْدَكَ يَنْكَا لَكَ عَدُوًّا أَوْ يَمْشِي لَكَ جَنَازَةً
[صحيح: صحيح أبو داود: 2664 ، كتاب الجنائز: باب الدعاء للمريض عند العيادة ، الصحيحة: 1504 ، أبو داود: 3107]
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو یہ دعا کیا کرتے:
اللهم اشف سعدا وأتمم له هجرته
”اے اللہ ! سعد کو شفا عطا فرما اور اس کے لیے اس کی ہجرت کو پورا کر دے ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 2661 ، كتاب الجنائز: باب الدعاء للمريض بالشفاء عند العيادة ، أبو داود: 3104]
➌ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی مریض کی عیادت کے دوران اس کے پاس سات مرتبہ کہے:
أَسْأَلُ اللهَ الْعَظِيمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ أَنْ يُشْفِيَكَ
اگر اس کی وفات کا وقت نہیں آیا ہو گا تو اللہ تعالیٰ اسے اس بیماری سے عافیت عطا فرمائیں گے ۔
[صحيح: صحيح أبو داود: 2663 ، كتاب الجنائز: باب الدعاء للمريض عند العيادة ، أبو داود: 3106 ، ترمذي: 2083 ، حاكم: 416/4]
➍ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم مریض یا میت کے پاس موجود ہو تو اچھی بات کہو کیونکہ فرشتے تمہاری کہی ہوئی بات پر آمین کہتے ہیں ۔
[رواه مسلم كما فى أحكام الجنائز للألباني: ص/19]

قریب الموت شخص کو کلمہ شہادت کی تلقین کرنا

➊ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لقنوا موتا كم لا إله إلا الله ”قریب المرگ آدمی کو لا إله إلا الله کی تلقین کرو .“
[مسلم: 916 ، كتاب الجنائز: باب تلقين الموتى لا إله إلا الله ، أبو داود: 3117 ، أحمد: 313 ، ترمذي: 983 ، نسائي: 5/4 ، ابن ماجة: 1445 ، بيهقى: 383/3 ، أبو يعلى: 1096 ، شرح السنة: 117/3]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری شخص کی عیادت کی تو فرمایا: يا خال قل لا إله إلا الله ”اے ماموں! لا إله الا الله کہہ دو۔“
[صحيح: أحكام الجنائز: ص/ 20 ، أحمد: 152/3 ، شيخ البانيؒ نے مسلم كي شرط پر اسے صحيح كها هے۔]
➌ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من كان آخر كلامه لا إله إلا الله دخل الجنة ”جس کا آخری کلام لا إله إلا الله ہو گا وہ جنت میں داخل ہو گا۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 2673 ، كتاب الجنائز: باب فى التلقين ، أبو داود: 3116 ، أحمد: 233/5 ، حاكم: 351/1]
➍ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی انہی الفاظ میں حدیث مروی ہے ۔
[مسلم: 918 ، كتاب الجنائز: باب ما يقال عند المصيبة ، ابن ماجة: 1444 ، ابن الجارود: 513 ، أبو يعلى: 6184 ، بيهقي: 383/3]
(نوویؒ) اس تلقین کا حکم استحباب پر مبنی ہے۔
[المجموع: 105/5]

اسے قبلہ رخ کرنا اور (وفات کے بعد ) اس کی آنکھیں بند کرنا

قریب المرگ انسان کو قبلہ رخ کرنا تا کہ اسی حالت میں اس کی وفات ہو کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ۔
(البانیؒ) (غالبا یہی وجہ ہے کہ ) انہوں نے اس عمل کو بدعات میں شمار کیا ہے۔
[أحكام الجنائز: ص/307]
البتہ جو لوگ قبلہ رخ کرنے کے قائل ہیں وہ مندرجہ ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہیں:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبیرہ گناہوں کی تعداد نو (9) بتلائی اور انہیں اس طرح شمار کیا کہ شرک ، جادو ، ناحق کسی جان کا قتل ، سود کھانا ، یتیم کا مال کھانا ، جنگ کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا ، پاک دامنہ عورتوں پر تہمت لگانا ، والدین کی نافرمانی کرنا اور استحلال البيت الحرام قبلتكم أحياء وأمواتا ”بيت الحرام کو حلال سمجھ لینا حالانکہ وہ تو زندہ اور مردہ حالت میں تمہارا قبلہ ہے۔“
[حسن: صحيح أبو داود: 2499 ، كتاب الوصايا: باب ما جاء فى التشديد فى أكل مال اليتيم ، أبو داود: 2875 ، نسائي: 89/7 ، حاكم: 259/4]
اس حدیث میں محل شاہد یہ ہے کہ ”بیت اللہ کو حلال سمجھ لینا حالانکہ وہ زندہ اور مردہ حالت میں تمہارا قبلہ ہے ۔“ لیکن یہ بات مذکورہ مسئلے کی دلیل نہیں بنتی کیونکہ اس میں مردہ حالت میں بیت اللہ کو قبلہ کہا گیا ہے نہ کہ قریب المرگ انسان کے لیے۔ علاوہ ازیں زندوں کے لیے بیت اللہ نماز کے وقت قبلہ ہے اور مردوں کے لیے قبر میں ، لٰہذا قریب المرگ انسان ان دونوں میں شامل نہیں ہے۔
تا ہم اگر اس منطق کو تسلیم کر لیا جائے تو ہر زندہ شخص پر قبلہ رخ ہونا لازم ہو گا قطع نظر اس بات سے کہ نماز کا وقت ہو یا نہ ہو۔ تو یقیناََ یہ بات نقل و عقل کے خلاف ہے۔
➋ حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ نے وصیت کی کہ جب ان کی وفات کا وقت آئے تو انہیں قبلہ رخ کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فرمایا: أصاب الفطرة ”یہ تو فطرت کو پہنچ گیا ہے ۔“
[تلخيص الحبير: 208/2 ، حافظ ابن حجرؒ نے اسے نقل تو كيا هے ليكن اس پر سكوت فرمايا هے۔]
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وفات کے وقت قبلہ رخ ہو کر اپنے دائیں ہاتھ کا تکیہ بنا لیا۔
[أحمد: 461/6 – 462]
تا ہم حضرت سعید بن مسیبؒ کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے قریب المرگ انسان کو قبلہ رخ کرنا نا پسند کیا ہے۔
[أحكام الجنائز: ص: 20]
➊ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا حـضـرتــم موتا كم فأغمضوا البصر فإن البصر يتبع الروح وقولوا خيرا فانه يؤمن على ما قال أهل البيت
”جب تم اپنے مردوں کے پاس حاضر ہو تو ان کی آنکھیں بند کر دیا کرو ، بے شک نظر روح کا پیچھا کرتی ہے۔ اور اچھی بات کہو کیونکہ (میت کے ) گھر والوں کی کہی ہوئی بات پر آمین کہی جاتی ہے۔“
[حسن: صحيح ابن ماجة: 1190 ، الروض النضير: 1191 ، ابن ماجة: 1455 ، كتاب ما جاء فى الجنائز: باب ما جاء فى تغميض الميت ، أحمد: 125/4 ، حاكم: 352/1 ، حافظ بوصيريؒ نے اسے حسن كها هے ۔ مصباح الزجاجة: 470/1]
➋ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت تشریف لائے تو اس وقت اس کی آنکھ کھلی تھی۔ فاغمضه ”تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بند کر دیا۔“
[مسلم: 920 ، كتاب الجنائز: باب فى إغماض الميت والدعاء له إذا حضر ، أبو داود: 3117 ، شرح السنة: 1468 ، ترمذي: 977]
(شوکانیؒ ) اس سے ثابت ہوا کہ میت کی آنکھیں بند کر نا مشروع ہے۔
[نيل الأوطار: 669/2]
(نوویؒ) اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
[شرح مسلم للنووى: 493/3]

اس کے قریب سورہ یٰس کی قراءت کرنا اور اس کے کفن دفن میں جلدی کرنا ، اِلا کہ اس کے زندہ ہونے کے امکان کی وجہ سے تاخیر کی جائے

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اقرأوا على موتاكم يٰس
”اپنے مرنے والوں کے قریب سورہ یٰس پڑھا کرو۔“
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 683 ، كتاب الجنائز: باب القراءة على الميت ، إرواء الغليل: 688 ، أبو داود: 3121 ، ابن ماجه: 1448 ، ابن أبى شيبة: 273/3 ، احمد: 26/5 ، حاكم: 565/1 ، بيهقي: 383/3]
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
مامن ميـت يـمـوت فيقرأ عنده يس إلا هون الله عليه
”جس مردے پر سوره یٰس کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اللہ تعالٰی اس پر آسانی فرما دیتے ہیں ۔“
[أخبار أصبهان لأبي نعيم: 188/1 ، اس كي سند ميں مروان بن سالم راوي ثقه نهيں هے۔ ميزان الاعتدال: 90/4 ، المجروحين: 13/3]
(البانیؒ) میت کے قریب سورہ یٰس پڑھنے کی کوئی حدیث صحیح نہیں ۔
[أحكام النجائز: ص/20]
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أسرعوا بالجنازة …
”جنازے کے ساتھ (تجهیز و تکفین میں ) جلدی کرو….“
[بخاري: 1315 ، كتاب الجنائز: باب السرعة بالجنازة ، مسلم: 944 ، مؤطا: 243/1 ، أبو داود: 3181 ، ترمذي: 1015 ، نسائي: 42/4 ، ابن ماجة: 1477]
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تین چیزوں میں تاخیر نہ کرنے کی وصیت فرمائی۔ (ان میں ایک یہ تھی ) والجنازه إذا حضرت ”جب جنازہ حاضر ہو جائے (تو اسے لے جانے میں تاخیر نہ کی جائے ) ۔“
[ضعيف: ضعيف ترمذي: 25 ، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى الوقت الأول من الفضل ، ترمذي: 172 ، ابن ماجة: 1486 ، أحمد: 105/1 ، حاكم: 162/2]
➌ حضرت طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ ، مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے اور فرمایا:
فآذنوني به وعـجـلـوا فإنه لا ينبغي لجيفة مسلم أن تحبس بين ظهراني أهله
”مجھے اس کی اطلاع دے دینا اور جلدی کرو کیونکہ مسلمان کے مردہ جسم کو اس کے گھر والوں کے درمیان روکے رکھنا جائز نہیں۔“
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 692 ، كتاب الجنائز: باب التعجيل بالجنازة وكراهية حبسها ، أبو داود: 3159 ، بيهقي: 386/3]
یہ اس وقت ہے کہ جب کسی شخص کی موت یقینی ہو اور جب ایسا نہ ہو تو اسے دفن نہیں کیا جائے گا جب تک کہ موت متحقق نہ ہو جائے۔
➍ حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ نے وصیت کی کہ :
إذا انطلقتم بجنازتي فأسرعوا بي المشي
”جب تم میرا جنازہ لے کر جاؤ گے تو مجھے جلدی لے کر چلنا ۔“
[حسن: أحكام الجنائز: ص/ 18 ، بيهقي: 395/3]

میت کا قرض ادا کرنا اسے (کسی کپڑے سے ) ڈھانپنا اور اس کا بوسہ لینا جائز ہے

➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نفس المومن معلقة بدينه حتى يقضى عنه
”مومن کی روح قرض کے ساتھ اس وقت تک معلق رہتی ہے جب تک کہ اسے ادا نہیں کر دیا جاتا۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1957 ، كتاب الصدقات: باب التشديد فى الدين ، ابن ماجة: 2413 ، ترمذي: 1078 – 1079 ، أحمد: 440/2 ، دارمي: 262/2 ، حاكم: 27/2 ، بيهقى: 49/6]
➋ حضرت سعد بن اطول رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کا بھائی تین سو درہم ترکہ چھوڑ کر فوت ہو گیا چونکہ میت کے اہل وعیال بھی تھے تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کے عیال پر یہ درہم خرچ کرنے کا ارادہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن أخاك محبوس بدينه فاقض عنه
”بے شک تمہارا بھائی اپنے قرض کی وجہ سے روک دیا گیا ہے، اس کی طرف سے قرض ادا کرو ۔“
[صحيح: أحكام الجنائز: ص/26 ، ابن ماجة: 2433 ، كتاب الصدقات: باب الدين على الميت ، أحمد: 136/4 ، بيهقي: 142/10]
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عہد رسالت میں اگر کوئی مقروض فوت ہو جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے کہ کیا اس نے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے؟ اگر لوگ کہتے ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھا دیتے اور اگر لوگ کہتے نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: صلوا على صاحبكم ”اپنے ساتھی کی نماز جنازہ خود ہی پڑھ لو ، پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو فتوحات سے نوازا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أنا أولى بالمومنين من أنفسهم فمن توفي ، عليه دين فعلى قضاء ومن ترك مالا فهو لورثته ”میں مومنوں کے اپنے نفسوں سے بھی ان کے زیادہ قریب ہوں ، لٰہذا جو فوت ہو جائے اور اس پر قرض ہو تو اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے اور جس نے ترکے میں کوئی مال چھوڑا تو وہ اس کے ورثاء کے لیے ہے۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1959 ، كتاب الصدقات: باب التشديد فى الدين ، ابن ماجة: 2415]
➍ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أخذ أموال الناس يريد أدائها أدى الله عنه ومن أخذها يريد إتلافها أتلفه الله ”جس شخص نے لوگوں سے ادا کر دینے کے ارادے سے مال حاصل کیا (پھر کسی وجہ سے وہ زندگی میں ادا نہ کر سکا) تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادا فرما دیں گے ۔ اور جس نے لوگوں سے ہلاک (یا ضبط ) کر لینے کی نیت سے مال لیا تو اللہ تعالیٰ بھی اسے ہلاک کر دیں گے ۔“
[بخاري: 2387 ، كتاب فى الاستقراض وأداء الديون والحجر والتفليس: باب من أخذ أموال الناس يريد أدائها أو إتلاقها ، ابن ماجة: 2411]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
ان النبى صلى الله عليه وسلم حين توفى سجي ببرد حبرة
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھاری دار چادر سے ڈھانپ دیا گیا ۔“
[بخاري: 5814 ، كتاب اللباس: باب البرود والحبرة والشملة ، مسلم: 942 ، أبو داود: 3120]
جو شخص حالت احرام میں فوت ہو گیا اس کا سر اور چہرہ نہیں ڈھانپا جائے گا جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ولا تخـمــروا رأسه ولا وجهه….
”اس کے سر (اور چہرے کو ) مت ڈھانپو …… ۔“
[بخاري: 1265 ، كتاب الجنائز: باب الكفن فى ثوبين ، مسلم: 2092 ، بيهقي: 390/3 ، أحكام الجنائز: ص/ 22]
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
ان ابا بكر قبل النبى بعد موته
”بے شک حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بوسہ لیا ۔“
[بخاري: 4455 ، 4456 ، 4457 ، كتاب المغازي: باب مرض النبى ووفاته ، نسائي: 11/4 ، ابن ماجة: 1457 ، أحمد: 55/6]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
قبل رسول الله عثمان بن مظعون وهو ميت حتى رأيت الدموع تسيل
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا بوسہ لیا اور اس وقت وہ فوت ہو چکے تھے حتٰی کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہہ رہے ہیں۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 2709 ، كتاب الجنائز باب فى تقبيل الميت ، أبو داود: 3163 ، ترمذي: 989 ، ابن ماجة: 1456 ، أحمد: 43/6 ، عبد بن حميد: 1526]

مریض کو چاہیے کہ اپنے رب پر اچھا گمان رکھے اور اس کی طرف رجوع کرے

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يموتن أحدكم إلا وهو يحسن بالله الظن
”تم میں سے ہرگز کوئی فوت نہ ہو مگر صرف اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو ۔“
[مسلم: 2877 ، كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها: باب الأمر بحسن الظن بالله تعالى عند الموت ، أبو داود: 3113 ، ابن ماجة: 4167]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے نوجوان کے پاس گئے جو قریب المرگ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”تم اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتے ہو؟ تو اس نے کہا: ارجو الله و اخاف ذنوبي ”میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے خائف ہوں ۔“ (یہ سن کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا يجتمعان فى قلب عبد فى مثل هذا الموطن إلا أعطاه الله ما يرجو و آمنه مما يخاف ”جس بندے کے دل میں اس وقت یہ دونوں چیزیں جمع ہو جائیں اللہ تعالیٰ اسے وہی عطا فرما دیتے ہیں جس کی وہ امید رکھتا ہے اور اسے اس چیز سے امن بخش دیتے ہیں جس سے وہ خائف ہوتا ہے۔“
[حسن: صحيح ابن ماجة: 3436 ، ترمذى: 983 ، كتاب الجنائز: باب ما جاء أن المومن يموت بعرق الجبين ، ابن ماجة: 4261 ، حافظ ابن حجرؒ نے بهي اسے حسن كها هے۔ الترغيب والترهيب: 268/4]
مندرجہ ذیل آیات اس مسئلے میں کافی ہیں:
تُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [النور: 31]
”اے مومنو! تم سب اکٹھے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو تا کہ تم فلاح پا جاؤ۔“
إِسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ [هود: 3]
”اپنے رب سے بخشش طلب کرو پھر اس کی طرف رجوع کرو ۔“
يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا [التحريم: 8]
”تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو۔ “

موت سے پہلے اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو جائے

➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقے (سے بھی ظلم کیا ہو ) تو اسے آج ہی اُس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے کہ جس دن نہ دینار ہوں گے نہ درہم بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کے ساتھی (مظلوم ) کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی ۔“
[بخاري: 2449 ، كتاب المظالم والغصب: باب من كانت له مظلمة عند الرجل ]
➋ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے دریافت کیا کہ ”کیا تمہیں علم ہے کہ مفلس شخص کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم و دینار اور مال و متاع نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! میری امت میں سے مفلس وہ ہے جو روز قیامت نماز ، روزے اور زکوۃ کے ساتھ آئے گا لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہو گی اور کسی کو تہمت لگائی ہو گی کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا، اور کسی کو بے جا مارا ہو گا ۔ اسے بٹھا دیا جائے گا اور اس کی نیکیاں ان لوگوں کو دی جائیں گی (جن پر اس نے زیادتی کی ہو گی ) اور اگر اپنی غلطیوں کا بدلہ دینے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو لوگوں سے ان کی غلطیاں لے کر اس پر ڈال دی جائیں گی پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 1971 ، ابواب صفة القيامة والرقاق والورع: باب ما جاء فى شأن الحساب و القصاص ، ترمذى: 2418 ، الصحيحة: 845]
اگر ایسے شخص پر لوگوں کے حقوق (یعنی قرض ، امانت ، غصب شدہ مال وغیرہ ) ہوں تو اسے چاہیے کہ مستحقین کی طرف انہیں لوٹا دے اور اگر بروقت اس کی طاقت نہ ہو تو اس کی وصیت کر دے۔
[أحكام الجنائز: ص/12]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما حق امري مسلم له شيئ يوصى فيه يبت ليلتين إلا ووصيته مكتوبة عـنـده
”کسی بھی مسلمان کے لیے جس کے پاس قابل وصیت کوئی مال ہو درست نہیں کہ دو راتیں بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ کیے بغیر گزارے۔“
[بخاري: 2738 ، كتاب الوصايا: باب الوصايا ، مسلم: 1627 ، موطا: 761/2 ، أبو داود: 2862 ، ترمذي: 974 ، نسائي: 3615 ، 3616]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1