قرض کی رقم کو مختلف کرنسی میں واپس کرنے کا شرعی حکم
تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

ریال قرض لینے کی صورت میں ان کے برابر ڈالر واپس کرنے کا حکم
اگر یہ شرط لگا کر معاملہ ہو تو پھر جائز نہیں، کیونکہ یہ نقد کی نقد کے ساتھ بیعع ہے، اس میں ادھار جائز نہیں، لیکن اگر کسی نے کسی کو سعودی ریال، مصری یا آسٹریلوی پونڈ قرض دیے ہوں، پھر مقروض نے قرض ادا کرتے وقت باہمی رضا مندی کے ساتھ ان کے بدلے نقد ڈالرز دے دیے، تو اس میں کوئی حرج نہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ لوگوں نے شکایت کی کہ لوگ دیناروں کے ساتھ بیع کرتے ہیں اور درہم لیتے ہیں، درہموں کے ساتھ بیع کرتے ہیں اور دینار لیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اگر تم اس دن کے ریٹ کے مطابق لو اور جب تم جدا ہو تو تمہارے درمیان کوئی (تصفیہ طلب) معاملہ نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔“ [ضعيف۔ سنن أبى داود، رقم الحديث 3354]
مثال کے طور پر اگر کوئی انسان ہزار ریال قرضہ لے، پھر ادا کرنے کے وقت دونوں متفق ہوں کہ قرض دار ہزار ریالوں کے بدلے ڈالر یا کویتی یا اردنی دینار یا آسٹریلوی پونڈ یا اس جیسی کوئی بھی کرنسی دے دے، تو اس میں کوئی حرج نہیں اگر با ہم اس پر متفق ہوں اور نقد بہ نقد لے لیں۔
[ابن بار مجموع الفتاوي و المقالات: 208/19]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے