قرض: لغوی، شرعی تعریف، مشروعیت اور احکام
تحریر: عمران ایوب لاہوری

قرض کی رقم کی مثل (رقم) واپس کرنا واجب ہے
➊ لغوی وضاحت: لفظِ قرض باب قَرَضَ يَقْرِضُ (ضرب) سے مصدر ہے اس کا معنی ”کاٹنا ، قرض دینا اور بدلہ دینا“ مستعمل ہے۔ باب قَارَضَ (مفاعلة) مضاربت کرنا۔ باب اُقْرَضَ (افعال) قرض دینا ، باب اِقْتَرَضَ (افتعال) قرض لینا اور باب اِسْتَقْرَضَ (استفعال) ”قرض مانگنا“ کے معانی میں استعمال ہوتے ہیں ۔
[المنجد: ص /682 ، القاموس المحيط: ص/585]
شرعی تعریف: قرض ایسے مال کو کہا جاتا ہے جو قرض لینے والے کو بطور قرض دیا جاتا ہے (اس پر قرض کا لغوی معنی ”کاٹنا“ بھی صادق آتا ہے) کیونکہ یہ قرض دینے والے کے مال کا ایک ٹکڑا ہی ہوتا ہے۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 3786/5]
مشروعیت: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما من مسلم يقرض مسلما قرضا مرتين إلا كان كصدقتها مرة
”کوئی بھی مسلمان جب کسی مسلمان کو دو مرتبہ قرض دیتا ہے تو وہ اس کے ایک مرتبہ صدقہ کی طرح ہوتا ہے۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1972 ، كتاب الأحكام: باب القرض ، ابن ماجة: 2430]
➋ حدیث نبوی ہے کہ :
والله فى عون العبد ما كان العبد فى عون أخيه
”اللہ تعالٰی اُس وقت تک بندے کی مدد میں ہوتے ہیں جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے ۔“
[مسلم: 2699]
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أخذ أموال الناس يريد أدائها أدى الله عنه ومن أخذها يريد إتلافها أتلفه الله تعالى
”جو شخص لوگوں کے اموال ادائیگی کے ارادے سے لے اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادا فرما دیں گے اور جو ہلاک کرنے کے ارادے سے (لوگوں کے ) اموال لے اللہ تعالٰی اسے ہلاک کر دیں گے ۔“
[بخاري: 2387 ، ابن ماجة: 2411 ، أحمد: 361/2 ، بيهقى: 354/5 ، شرح السنة: 2146]
➍ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو كان لي مثل أحد ذهبا ما يسرني أن لا يمر على ثلاث وعندى منه شيئ إلا شيئ أرصده لدين
”اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تب بھی مجھے یہ پسند نہیں کہ تین دن گزر جائیں اور اس (سونے) کا کوئی بھی حصہ میرے پاس رہ جائے سوائے اس کے جو میں کسی قرض کے دینے کے لیے رکھ چھوڑوں ۔“
[بخاري: 2389 ، كتاب الاستقراض وأداء الديون]
➎ قرض لینے کے جواز پر اجماع ہے۔
[المغنى: 313/4]
کیونکہ اس سے زیادہ لینا یا دینا سود کے زمرے میں آتا ہے۔ حضرت ابو بردہ بن ابی موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں مدینہ منورہ آیا (وہاں) میں عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ملا۔ اس نے (مجھ سے) کہا تو ایسی جگہ (سکونت پذیر ) ہے جہاں سود عام ہے:
فإذا كان لك على رجل حق فأهدى إليك حمل تبن أو حمل شعير أو حمل قت فلا تاخذه فإنه ربا
”پس جب تیرا کسی شخص پر حق ہو اور وہ تجھے بھوسا یا جو کا گٹھا یا خشک گھاس رسی سے باندھ کر ہدیہ بھیجے تو تجھے چاہیے کہ اس کو نہ لے یقیناََ وہ سود ہے ۔“
[بخاري: 3814 ، كتاب المناقب: باب مناقب عبد الله بن سلام]
جب ہدیہ دینا سود ہے اس کے علاوہ کچھ اور دینا تو بالا ولی ممنوع ہے۔
(شوکانیؒ) حاصل کلام یہ ہے کہ ہدیہ اور عاریہ وغیرہ جب قرض کی مدت میں مہلت لینے کے لیے ہو یا قرض خواہ کو رشوت دینے کے لیے ہو یا قرض کے بدلے قرض خواہ کو نفع پہنچانے کے لیے ہو تو یہ حرام ہے کیونکہ یہ سود اور رشوت کی ایک قسم ہے اور اگر یہ قرض کے لین دین سے پہلے قرض دار اور قرض خواہ کے مابین جاری عادت و رسم کی وجہ سے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
[نيل الأوطار: 617/3]
اور یہ بھی جائز ہے کہ وہ (قرض ) اس رقم سے افضل یا زائد ہو جبکہ یہ پہلے مشروط نہ ہو اور یہ بالکل جائز نہیں ہے کہ قرض دینے والے کے لیے قرض نفع لے کر آئے
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا :
و كان لى عليه دين فقضاني و زادني
”اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرا کچھ قرض تھا آپ نے مجھے وہ ادا کیا اور مجھے (اس سے) زائد بھی دیا ۔“
[بخاري: 2394 ، كتاب الاستقراض وأداء الديون: باب حسن القضاء ، مسلم: 715 ، ابو داود: 3347 ، نسائي: 283/7]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک شخص کا خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ شخص تقاضا کرنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے صحابہ سے ) فرمایا کہ ادا کر دو ۔ صحابہ نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا ، لیکن نہیں ملا ۔ البتہ اس سے زیادہ عمر کا مل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی اسے دے دو۔“ اس پر اس شخص نے کہا کہ آپ نے مجھے پورا پورا حق دے دیا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو بھی پورا بدلہ دے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن خياركم أحسنكم قضاء
”تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض ادا کرنے میں اچھے ہیں ۔ “
[بخارى: 2305 ، كتاب الوكالة: باب وكالة الشاهد والغائب جائزة ، مسلم: 1601]
➌ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے بھی اسی معنی میں حدیث مروی ہے۔
[مؤطا: 280/2 ، مسلم: 1224 ، 1600 ، ابو داود: 3346 ، ترمذي: 1318 ، ابن ماجة: 2285 ، أحمد: 390/6 ، دارمي: 254/2 ، مسند طيالسي: 971]
➊ جیسا کہ ابھی پیچھے صحیح بخاری کی روایت گزری ہے کہ ”جب تیرا کسی شخص پر حق ہو اور وہ تجھے بھوسا یا جو کا گٹھا یا خشک گھاس رسی سے باندھ کر ہدیہ بھیجے تو تجھے چاہیے کہ اسے نہ لے :
فإنه ربا
”کیونکہ وہ سود ہے ۔“
[بخاري: 3814]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أقرض أحـدكـم قـرضــا فـأهدى إليـه أو حـمـلـه عـلـى الدابة فلا يركبها ولا يقبله إلا أن يكون جرى بينه وبينه قبل ذلك
”جب تم میں سے کوئی قرض دے تو وہ شخص اسے ہدیہ دے یا جانور پر سوار کرے تو نہ وہ سوار ہو اور نہ ہی اس (ہدیہ ) کو قبول کرے الا کہ ان کے مابین پہلے سے ہی ایسا معاملہ چلتا ہو ۔“
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 529 ، كتاب الأحكام: باب القرض الضعيفة: 1162 ، ابن ماجة: 2432 ، اس كي سند ميں یحيٰي بن اسحاق ہنائي راوي مجهول هے۔ تقريب التهذيب: 342/2]
➌ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
كل قرض جرمنفعة فهو ربا
”ہر وہ قرض جو نفع لائے سود ہے ۔“
[ضعيف: إرواء الغليل: 1398 ، ضعيف الجامع الصغير: 4244 ، اس كي سند ميں سوار بن مصعب راوي متروك هے۔ الجرح والتعديل: 271/4 ، ميزان الاعتدال: 246/2 ، المجروحين: 356/1 ، المغنى: 290/1]
یہ روایات اگرچہ ضعیف ہیں لیکن یہ مسئلہ (قرض پر نفع لینے کی ممانعت ) صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ جیسا کہ پیچھے بیان گزر چکا ہے۔
(مالکیہ ، احناف ) ہر وہ قرض جو نفع لائے حرام ہے۔
[حاشية الدسوقى: 224/3 ، القوانين الفقهية: ص/288 ، رد المختار: 182/4]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1