سوال
کیا ایسا شخص امامت کے لائق ہے جو حقوق العباد کا مجرم ہو، قرض میں ڈوبا ہو، اور یہ قرض بھی دنیاوی عیش و عشرت کے لیے لیا گیا ہو؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!
❖ امامت اور حقوق العباد:
اگر سوال درست اور واضح ہو تو یہ بات سمجھ لیجیے کہ حقوق العباد کی ادائیگی میں غفلت اور لاپرواہی ایک بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے، یہاں تک کہ شہید فی سبیل اللہ کو بھی اس گناہ کی معافی نہیں ملتی۔
جبکہ شریعت کی نگاہ میں امامت ایک نہایت مقدس اور قابلِ احترام منصب ہے، جس کے لیے خاص صفات کا ہونا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:
﴿…وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا﴾ الفرقان: 74
(اے ہمارے رب! ہمیں متقی لوگوں کا امام بنا۔)
❖ نیک لوگوں کو امام بنانا:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
إِجْعَلُوْا أَئِمَّتَکُمْ خِیَارَکُمْ فَإِنَّھُمْ وَفْدُکُم بَیْنَکُمُ وَبَیْنَ رَبِّکُم۔
(اخرجه الدار قطنی ص۹۷، والبیھقی ص۹۰ ج۲۔ قال البیھقی: اسناد ضعیف۔ مرعاة شرح المشکوة ص۱۱۰ ج۲)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"تم اپنے بہترین افراد کو امام بناؤ، کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان نمائندے ہوتے ہیں۔”
الحاکم نے حضرت مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کی ترجمانی میں روایت کیا:
«إنْ سَرَّكُمْ أَنْ تُقْبَلُ صَلَاتُكُمْ فَلْيَؤُمَّكُمْ خِيَارُكُمْ، فَإِنَّهُمْ وَفْدُكُمْ فِيمَا بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رَبِّكُمْ»
(نیل الاوطار بحوالہ فتاویٰ نذیریہ ص۳۹۴ ج۱ طبع دہلی)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری نمازیں قبول ہوں تو تمہارے امام نیک لوگ ہونے چاہییں، کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان نمائندے ہیں۔”
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ حقوق العباد کا تارک شخص امامت کے لیے موزوں نہیں۔
❖ امام کا مقروض ہونا:
اگر امام مقروض ہو تو تین ممکنہ صورتیں ہوتی ہیں:
➤ پہلی صورت:
قرض جائز ضرورت کے تحت لیا گیا ہو اور ادائیگی کی نیت بھی ہو۔
ایسی صورت میں نہ صرف قرض لینا جائز ہے، بلکہ ایسے امام کی اقتدا میں نماز پڑھنا بھی بلا شبہ جائز ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ﴾
البقرة: 282
(اے ایمان والو! جب تم مقررہ مدت کے لیے آپس میں قرض کا لین دین کرو تو اس کو لکھ لیا کرو۔)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرض لینا جائز ہے، اور تحریری لین دین کا حکم ایک ارشادی امر ہے، لازمی (واجب) نہیں۔
جیسا کہ تفسیر جمل میں ہے:
"أمرارشاد ای تعلیم ترجع فائدته إلی منافع الخلق دنیاھم فلا یثاب عليه المکلف إلا أن قصد الأمثال۔”
(حاشیہ جلالین، نمبر۱۳، ص۳۳، سورہ بقرہ)
رسول اللہ ﷺ خود بھی بعض اوقات مقروض ہوتے تھے، جبکہ آپ ہی امام بھی ہوتے تھے۔
سنن ابی داؤد میں ہے:
عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «كَانَ لِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَيْنٌ فَقَضَانِي وَزَادَنِي»
(سنن ابی داؤد، ص۴۷۵ ج۳، باب فی حسن انقضاء)
"حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرا رسول اللہ ﷺ پر کچھ قرض تھا، آپ ﷺ نے واپس کیا اور مزید بھی دیا۔”
لہٰذا، اگر قرض جائز ضرورت کے تحت لیا گیا ہو اور ادائیگی کی نیت بھی ہو تو ایسا امام نماز کے لیے قابلِ قبول ہے۔
➤ دوسری صورت:
ضرورت تو جائز ہو مگر واپسی کی نیت نہ ہو، یا ادائیگی میں ٹال مٹول کرے۔
ایسی صورت میں مقروض شخص ظلم جیسے کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے، لہٰذا وہ امامت کے عہدہ کے لائق نہیں۔
جیسا کہ صحیحین، سنن ابی داؤد، اور جامع ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ۔
(سنن ابی داؤد، ص۴۷۵ ج۲، جامع ترمذی: ص۱۷۶ ج۱)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"مالدار شخص کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔”
➤ تیسری صورت:
نہ ضرورت جائز ہو، نہ ادائیگی کی نیت ہو، بلکہ قرض صرف دکھاوا، شہرت اور دنیاوی ریاکاری کے لیے لیا گیا ہو۔
ایسا شخص امامت کے ہرگز قابل نہیں، اور ایسے شخص کو امام مقرر کرنا شریعت کا مذاق بنانے کے مترادف ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا﴾ ﴿٢٦﴾
﴿إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا﴾ ﴿٢٧﴾
الإسراء: 26-27
(فضول خرچی نہ کرو، بے شک فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہوتے ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔)
فضول خرچی اور نمود و نمائش جیسے اعمال عام مسلمان کو بھی زیب نہیں دیتے، چہ جائیکہ ایک امام ان کا مرتکب ہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔
❖ حکم:
- اگر ایسا فاسق و فاجر شخص امامت کروا رہا ہو تو اگر ممکن ہو اور جماعت میں انتشار کا خطرہ نہ ہو تو فوراً اسے ہٹا دینا چاہیے۔
- ہاں، اگر کبھی مجبوری میں اس کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے تو نماز ادا ہو جائے گی، لیکن اس کو امام بنانا جائز نہیں۔
هٰذَا مَا عِندِي وَاللّٰهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ