قرب و معیت کی صفاتِ الٰہی: بالذات یا بالعلم؟
ماخوذ: قرآن و حدیث کی روشنی میں احکام و مسائل، جلد 01

قرب، معیت اور احاطہ جیسی صفاتِ باری تعالیٰ کی حقیقت

سوال:

قرب، معیت، احاطہ وغیرہ جو اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، کیا یہ بالذات (ذاتی طور پر) ہیں یا بالعلم (علم کے ذریعے) ہیں؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرب، معیت اور دیگر اس جیسی صفات کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے:

بعض علماء ان صفات کو بالذات مراد لیتے ہیں، اور ان کی تاویلات کرتے ہیں۔
◈ جبکہ بعض علماء ان صفات کو بالعلم (علم کے ساتھ قرب یا احاطہ) لیتے ہیں۔

جمہور علماء کا مذہب

تحقیق کے مطابق، جمہور (اکثر) اہل سنت والجماعت کا مذہب یہ ہے کہ:

تمام صفاتِ باری تعالیٰ پر ایمان بلا کیف (کیفیت دریافت کیے بغیر) اور بلا تشبیہ (کسی چیز کے مشابہ کیے بغیر) لانا لازم ہے۔

قرآنی دلیل

قال اللہ تعالیٰ:
"لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ”
(اس کی کوئی مثل نہیں ہے)

اہل علم کا اجماعی مؤقف

اہل علم نے کہا:

◈ ان صفات سے متعلق جو روایات آئی ہیں، ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں۔
نہ ان میں شک کیا جائے اور نہ کیفیت پوچھی جائے۔

اکابر علماء کی تصریحات

امام مالک بن انس، سفیان بن عینیہ، اور عبداللہ بن مبارک رحمہم اللہ کا اس بارے میں قول یہی ہے:

"اَمرُوہَا بِلَا كَیْف”
(ان صفات کو بلا کیف تسلیم کیا جائے)

اسی مؤقف کو اہل سنت والجماعت کے دیگر علماء نے بھی اختیار کیا ہے، جیسا کہ جامع ترمذی میں بھی موجود ہے۔

خلاصہ تحقیق

اگرچہ علماء نے اس مسئلے پر تفصیلی گفتگو کی ہے اور مختلف رسائل تحریر فرمائے ہیں، مگر محققین کا خلاصہ یہی ہے کہ:

تمام صفاتِ باری تعالیٰ پر بلا کیف اور بلا تشبیہ ایمان لانا واجب ہے۔
◈ اسی عقیدے پر ثابت قدم رہنا چاہیے۔

فقط، والله أعلم بالصواب، وإليه المرجع والمآب۔

توثیقِ فتویٰ

الجواب صحیح والرای نجیح:

➊ 1281ھ: سید محمد نذیر حسین
➋ 1299ھ: سید محمد عبدالسلام غفر له
➌ 1305ھ: سید محمد ابو الحسن
➍ 1309ھ: ابو سعید محمد حسین

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1