سوال
قربانی کے لئے کون سا جانور موزوں ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لفظ موزوں ایک عام لفظ ہے۔ اس کا مطلب مختلف پہلوؤں سے لیا جا سکتا ہے:
➊ جانور کی قسم کے اعتبار سے
اگر موزوں سے مراد قربانی کے جانور کی نوع اور قسم کی تعیین ہے تو سب سے زیادہ بہتر اور افضل موٹا تازہ دنبہ یا مینڈھا ہے، کیونکہ رسول اللہﷺ اکثر مینڈھے کی قربانی فرمایا کرتے تھے۔
حدیث مبارکہ:
عَن انس رضی اللہ عنہ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ، وَأَنَا أُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ۔
(بخاری: کتاب الاضاحی ج۲ ص۸۳۳)
یعنی: "رسول اللہﷺ دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور میں (انس رضی اللہ عنہ) بھی دو مینڈھوں کی قربانی کرتا ہوں۔”
اسی طرح:
عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ يَطَأُ فِي سَوَادٍ، وَيَبْرُكُ فِي سَوَادٍ، وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ، فَأُتِيَ بِهِ فضَحِّيَ۔
(ابو داؤد: باب ما یستحب من الضحایا ص۳۸۲)
یعنی: "رسول اللہﷺ نے سینگ دار خالص سیاہ مینڈھا منگوایا اور اس کی قربانی کی۔”
(مسلم شریف ص۱۵۶ ج۲، نسائی شریف: باب الکبش ص۱۹۷ ج۲، تحفة الاحوذی ص۳۰۴ ج۲)
لہٰذا ترتیب کے اعتبار سے افضل جانور یہ ہیں:
✿ مینڈھا یا دنبہ
✿ اس کے بعد اونٹ
✿ پھر گائے
✿ پھر بکری
➋ جانور کی عمر کے اعتبار سے
اگر موزوں سے مراد قربانی کے جانور کی عمر ہے تو اس کے لئے شرط یہ ہے کہ جانور دو دانت (دوندا) ہو۔
حدیث مبارکہ:
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً، إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ، فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ۔
یعنی: "قربانی کا جانور دوندا ہونا چاہیے۔ اگر یہ نہ ملے تو پھر موٹا تازہ دنبہ یا مینڈھا بھی جائز ہے۔”
✿ مسنہ اونٹ: پانچ سال پورے کر کے چھٹے سال میں داخل ہو۔
✿ گائے: دو سال پورے کر کے تیسرے میں داخل ہو۔
✿ بکری: ایک سال پورا کر کے دوسرے میں داخل ہو۔
یعنی گائے، اونٹ، بکرا اور کھیرا اگر دوندا نہ ہو تو قربانی جائز نہیں ہے۔
➌ جانور کے عیوب کے اعتبار سے
اگر موزوں سے مراد یہ ہے کہ جانور میں کون کون سے عیوب نہ ہوں، تو قربانی میں یہ جانور جائز نہیں:
(الف) کان یا ناک کے عیوب
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُضَحِّيَ بِمُقَابَلَةٍ، أَوْ مُدَابَرَةٍ، أَوْ شَرْقَاءَ، أَوْ خَرْقَاءَ، أَوْ جَدْعَاءَ۔
(نسائی: ص۱۹۰ ج۱، تحفة الأحوذی شرح ترمذی: ص۳۵۴ ج۲)
یعنی: رسول اللہﷺ نے ان جانوروں کی قربانی سے منع فرمایا:
➊ سامنے سے کان کٹا ہوا
➋ جڑ کی طرف سے کان کٹا ہوا
➌ آگے سے کان چرا ہوا
➍ کان میں گول سوراخ والا
➎ ناک کٹا ہوا
(ب) جسمانی کمزوری یا بیماری والے جانور
عن البرآء قال سمعت رسول اللہﷺ لَا يَجُوزُ مِنَ الضَّحَايَا: الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ عَرَجُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَجْفَاءُ الَّتِي لَا تُنْقِي۔
(رواہ الخمسة، نسائی: ص۱۹۰ ج۲، باب العحفاء)
یعنی: قربانی میں یہ جانور جائز نہیں:
✿ پورا بھینگا
✿ واضح لنگڑا
✿ واضح بیمار
✿ ایسا دبلا پتلا جانور جس میں مغز ہی نہ ہو
(ج) سینگ یا کان کے نقص والے جانور
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُضَحَّى بِأَعْضَبِ القَرْنِ وَالأُذُنِ۔
(تحفة الأحوذی: ص۲۵۷ ج۲، نسائی ص۱۹۶ ج۲)
یعنی: رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ "سینگ ٹوٹے ہوئے اور پورا کان کٹے جانور کی قربانی نہ کی جائے۔”
اضافی نکتہ
✿ قدرتی طور پر بے سینگ (اَجْلَحْ) جانور کی قربانی بالاتفاق جائز ہے۔
✿ البتہ شوافع کے نزدیک یہ مکروہ ہے۔
خلاصہ کلام
لہٰذا قربانی کے لئے سب سے موزوں جانور وہ ہے جو:
✿ صحت مند اور موٹا تازہ ہو
✿ صحیح عمر کا ہو (یعنی دوندا ہو)
✿ عیوب سے پاک ہو
✿ اور افضلیت کے لحاظ سے دنبہ یا مینڈھا سب سے بڑھ کر ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب