قربانی کے دن: 10 سے 13 ذی الحجہ تک قربانی جائز ہے
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج1 ص617

سوال

قربانی کتنے دنوں تک کرنی جائز ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قربانی کے ایام

قربانی کے دن چار ہیں: 10، 11، 12، اور 13 ذی الحجہ۔
اس کی بنیاد قرآن مجید کی آیات اور احادیث میں ملتی ہے، جن میں ایام معدودات اور ایام معلومات کا ذکر ہوا ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مطابق:

(قال ابن عباس الايام المعدودات ايام التشريق اربعة ايام: يوم النحر و ثلاثة بعد وروي عن ابن عمر و ابن الزبير و ابي موسيٰ مثل ذالك)
(تفسير ابن كثير: ج 1 ص 245، طبع جديد ص 263)

ترجمہ: "ایام معدودات سے مراد ایام تشریق ہیں، یعنی 10 ذی الحجہ (یوم النحر) اور اس کے بعد کے تین دن (11،12،13)۔ یہی تفسیر ابن عمر، ابن زبیر اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہے۔”

قرآنی دلیل

﴿وَيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ فى أَيّامٍ مَعلومـتٍ عَلى ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعـمِ فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا البائِسَ الفَقيرَ﴿٢٨﴾
(سورة الحج)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا:

(عن ابن عباس الايام المعلومات يوم النحر و ثلاثه ايام بعده)
(تفسير ابن كثير: ج 3 ص 217، طبع جديد 240)

ترجمہ: "ایام معلومات سے مراد یوم النحر اور اس کے بعد کے تین دن ہیں۔”

اسی کی تائید ابن عمر رضی اللہ عنہ، ابراہیم نخعی، اور ایک قول کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ نے بھی کی ہے۔

اجماعِ علماء

شرح المہذب میں ہے:

(اتفق العلماء ان الايام المعدودات هي ايام التشريق وهي ثلاثة بعد يوم النحر)
(شرح المهذب ج 9 ص 381 و هداية اخيرين ص 446)

ترجمہ: "علماء کا اجماع ہے کہ ایام معدودات سے مراد ایام تشریق ہیں، یعنی 10 ذی الحجہ اور اس کے بعد کے تین دن۔”

احادیث سے استدلال

متعدد مرفوع اور موقوف احادیث میں یہ وضاحت ہے کہ قربانی تمام ایام تشریق (10،11،12،13) میں کی جا سکتی ہے۔

➊ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

(قال رسول الله صلي الله عليه وسلم كل فجاج منيٰ منحر و كل ايام التشريق ذبح۔ اخرجه ابن حبان في صحيحه)
(موارد الظمان الي زوائد ابن حيان: ص 249)

ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منیٰ کی ہر گلی قربان گاہ ہے اور ایام تشریق کے تمام دن قربانی کے ہیں۔”

➋ حضرت جبیر رضی اللہ عنہ سے ہی دوسری روایت:

(عن سليمان بن موسيٰ عن نافع بن جبير عن ابيه ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال ايام التشريق كلها ذبح)
(التعليق المغني علي الدارقطني: ج 4 ص 284)

ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایام تشریق کے تمام دن قربانی کے دن ہیں۔”

اعتراض اور جواب

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ حدیث منقطع ہے۔ لیکن:

✿ امام بیہقی نے "معرفۃ السنن” میں اس انقطاع کا ذکر نہیں کیا۔
✿ امام دارقطنی نے اس کو متصل سند سے بیان کیا ہے اور راوی ثقہ ہیں۔ (فتح الباري، ج 10 ص 6)
✿ امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جب ابن حبان نے اس کو اپنی صحیح میں درج کیا تو انقطاع کا اعتراض باقی نہیں رہا۔ (نيل الاوطار: ج 5 ص 142)
✿ حافظ ابن قیم نے خود مختلف سندوں سے اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور بعض کو صحیح بھی قرار دیا ہے۔

خلاصہ احادیث

✿ صحیح ابن حبان کی حدیث صحیح درجے کی ہے۔
✿ دیگر احادیث اگرچہ بعض ضعیف ہیں لیکن متعدد اسناد کی وجہ سے مجموعی طور پر یہ حسن درجہ رکھتی ہیں۔
✿ امام ابن حجر ہیثمی اور امام شوکانی رحمہما اللہ نے بھی یہی رائے دی ہے۔

(والحاصل ان للحديث طرقا يقوي بعضها بعضا فهو حسن يحتج به)
(مرعاة المفاتيح: ج 3 ص 264 و نيل الاوطار: ج 5 ص 142)

اقوالِ سلف و ائمہ

✿ حضرت علی، ابن عباس، جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہم
✿ تابعین: امام عطاء، حسن بصری، سلیمان بن موسیٰ، عمر بن عبدالعزیز، مکحول، داؤد ظاہری
✿ ائمہ: امام اوزاعی، امام شافعی، امام احمد (ایک قول کے مطابق)، امام ابن تیمیہ

یہ تمام حضرات اس کے قائل ہیں کہ سارے ایام تشریق قربانی کے دن ہیں۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فیصلہ

(آخر وقت ذبح الاضحية آخر ايام التشريق وهو مذهب الشافعي واحد قولي احمد۔ اختيارات ابن تيميه)
(بحواله الاعتصام: 28 فروري 1969ء)

ترجمہ: "قربانی کا آخری وقت 13 ذی الحجہ ہے۔ یہی امام شافعی کا مذہب ہے اور امام احمد کے ایک قول کے مطابق بھی۔”

امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول

(ان الراجع في ذالك مذهب الشافعي وهو ان وقت الاضحيه من يوم النحر الي آخر ايام التشريق)
(تفسير ابن كثير ج 1 ص 245، ج 3 ص 223)

ترجمہ: "راجح قول امام شافعی کا ہے کہ قربانی یوم النحر سے شروع ہو کر ایام تشریق کے آخری دن (13 ذی الحجہ) تک کی جا سکتی ہے۔”

اجماع کے دعوے کی تردید

بعض نے کہا کہ قربانی صرف 12 ذی الحجہ تک ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ لیکن یہ دعویٰ درست نہیں، کیونکہ:

✿ حضرت علی، ابن عباس، جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہم
✿ امام شافعی، امام احمد (ایک قول کے مطابق)، امام اوزاعی وغیرہ

سب اس بات کے قائل ہیں کہ قربانی 13 ذی الحجہ تک ہے۔ لہٰذا اجماع کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔

خلاصہ کلام

✿ قربانی کے دن چار ہیں: 10، 11، 12، اور 13 ذی الحجہ۔
✿ ان چار دنوں میں قربانی کرنا بالکل درست اور جائز ہے۔
✿ 13 ذی الحجہ کے بعد قربانی جائز نہیں۔
✿ کوئی مرفوع حدیث قربانی کو 12 ذی الحجہ تک محدود نہیں کرتی۔

هذا ما عندي والله تعاليٰ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے