قربانی کے جانور یعنی اونٹ پر سوار ہونا

تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ الثَّالِثُ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ { أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَسُوقُ بَدَنَةً ، فَقَالَ: ارْكَبْهَا . قَالَ: إنَّهَا بَدَنَةٌ . قَالَ ارْكَبْهَا . فَرَأَيْتُهُ رَاكِبَهَا ، يُسَايِرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ } وَفِي لَفْظٍ قَالَ فِي الثَّانِيَةِ ، أَوْ الثَّالِثَةِ: ارْكَبْهَا . وَيْلَكَ ، أَوْ وَيْحَكَ ” .
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ قربانی (کے جانور) کے ساتھ (پیدل) چل رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر سوار ہو جاؤ، اس نے کہا: یہ تو قربانی کا جانور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر سوار ہو جاؤ۔ میں نے اسے دیکھا کہ وہ اس پر سوار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
ایک روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری یا تیسری مرتبہ فرمایا: اس پر سوار ہو جاؤ تمھارے لیے ہلاکت ہو، یا (فرمایا: ) تم پر افسوس ہے ۔
شرح المفردات:
بدنة: اونٹ اور گائے پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
شرح الحدیث:
بعض نے اس حدیث کے ظاہری معنی کو لیتے ہوئے قربانی کے جانور یعنی اونٹ پر سوار ہونا واجب قرار دیا ہے، جبکہ جمہور علماء اسے کسی مصلحت دنیویہ پر محمول کرتے ہیں اور ان کے نزدیک واجب نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو خود سوار ہوئے ہیں اور نہ ہی باقی لوگوں کو سوار ہونے کا حکم فرمایا ہے۔
[شرح عمدة الأحكام لابن دقيق العيد: (63/3)]
(236) صحيح البخاري، كتاب الحج، باب تقليد النعل ، ح: 1706 ، كتاب الوصايا، باب هل ينتفع الواقف بوقفه، ح: 2700 صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب جواز ركوب البدنة المهداة …. ، ح: 1332

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل