سوال
ہمارے پاس گھر کی گائے کی ایک بچھیا ہے۔ جب وہ بلوغت کی عمر کو پہنچی تو حاملہ ہونے کے لیے بولی نہیں۔ جانوروں میں اس مقصد کے لیے دیگر علامات بھی ہوتی ہیں لیکن ہم نے ان پر بھی توجہ نہ دی۔ اسی وجہ سے یہی گمان رہا کہ یہ بچھیا نسل کشی کے قابل نہیں ہے۔ اس بنیاد پر میرے والد صاحب نے اس کی قربانی کی نیت کر لی۔ بعد میں ایک ماہر ڈاکٹر نے اس بچھیا کو دیکھا اور کہا کہ یہ گونگی ہے لیکن اس میں حاملہ ہونے کی علامات موجود ہیں اور دودھ دینے کے لحاظ سے یہ بہترین ثابت ہو گی۔ اب یہ حاملہ ہونے کے لیے بول بھی چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس کی جگہ کسی اور گائے کی قربانی کر سکتے ہیں یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ (شعیب الرحمن خانیوال)
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسئولہ میں بظاہر کوئی شرعی عذر دکھائی نہیں دیتا۔ لہٰذا:
(يُرِيدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ) (البقرہ، آیت 185)
کے تحت جانور کی تبدیلی جائز معلوم ہوتی ہے۔
فقہ حنبلی کی مشہور کتاب المغنی میں لکھا ہے:
(وَيَجُوزَ أَنْ يُبَدِّلَ الْأُضْحِيَّةَ إذَا أَوْجَبَهَا بِخَيْرٍ مِنْهَا هَذَا الْمَنْصُوصُ عَنْ أَحْمَدَ .وَبِهِ قَالَ عَطَاءٌ ، وَمُجَاهِدٌ ، وَعِكْرِمَةُ ، وَمَالِكٌ ، وَأَبُو حَنِيفَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ)
یعنی: اگر کوئی قربانی کو اپنے اوپر واجب (متعین) کر لے تو پھر اس کا کسی بہتر جانور سے بدلنا جائز ہے۔ امام احمد، حضرت عطاء، مجاہد، عکرمہ، امام مالک، امام ابو حنیفہ اور امام محمد سب اس کے قائل ہیں۔
فقہ حنبلی کی ایک اور کتاب الانصاف میں لکھا ہے:
(وإذا تعيبت لم يجز بيعها ولا هبتها إلا أن يبدلها بخير منها)
(ج 4، ص 89)
جب قربانی کے لیے جانور متعین ہو جائے تو اس کا بیچنا یا ہبہ کرنا جائز نہیں، البتہ اس کو کسی بہتر جانور سے بدلنا جائز ہے۔
امام ابن حزم کی رائے
امام ابن حزم لکھتے ہیں:
(وَلاَ يَلْزَمُ مَنْ نَوَى أَنْ يُضَحِّيَ بِحَيَوَانٍ مِمَّا ذَكَرْنَا أَنْ يُضَحِّيَ بِهِ، وَلاَ بُدَّ, بَلْ لَهُ أَنْ لاَ يُضَحِّيَ بِهِ إنْ شَاء إِلاَّ أَنْ يَنْذُرَ ذَلِكَ فِيهِ فَيَلْزَمُهُ الْوَفَاءُ بِهِ.بُرْهَانُ ذَلِكَ: أَنَّ الأُُضْحِيَّةَ كَمَا قَدَّمْنَا لَيْسَتْ فَرْضًا فَإِذْ لَيْسَتْ فَرْضًا فَلاَ يَلْزَمُهُ التَّضْحِيَةُ إِلاَّ أَنْ يُوجِبَهَا نَصٌّ، وَلاَ نَصَّ إِلاَّ فِيمَنْ ضَحَّى قَبْلَ وَقْتِ التَّضْحِيَةِ فِي أَنْ يُعِيدَ; وَفِيمَنْ نَذَرَ أَنْ يَفِيَ بِالنَّذْرِ. وَرُوِّينَا مِنْ طَرِيقِ مُجَاهِدٍ لاَ بَأْسَ بِأَنْ يَبِيعَ الرَّجُلُ أُضْحِيَّتَهُ مِمَّنْ يُضَحِّي بِهَا وَيَشْتَرِي خَيْرًا مِنْهَا وَعَنْ عَطَاءٍ فِيمَنْ اشْتَرَى أُضْحِيَةً, ثُمَّ بَدَا لَهُ قَالَ: لاَ بَأْسَ بِأَنْ يَبِيعَهَا وَرُوِّينَا، عَنْ عَلِيٍّ, وَالشَّعْبِيِّ, وَالْحَسَنِ, وَعَطَاءٍ, كَرَاهَةَ ذَلِكَ.قَالَ عَلِيٌّ: مَا نَعْلَمُ لِمَنْ كَرِهَ ذَلِكَ حُجَّةً.)
ترجمہ:
کسی خاص جانور کی قربانی کی نیت کر لینے سے یہ لازم نہیں ہوتا کہ اب وہ لازماً اسی جانور کی قربانی کرے اور تبدیلی کی کوئی گنجائش نہ ہو، بلکہ اگر چاہے تو کسی اور جانور کی قربانی کر سکتا ہے، سوائے اس صورت میں جب کسی مخصوص جانور کی نذر مانی ہو۔ نذر کی صورت میں نذر پوری کرنا ضروری ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ قربانی فرض نہیں بلکہ سنت ہے۔ جب فرض ہی نہیں تو متعین جانور کی قربانی کے وجوب کے لیے نص شرعی چاہیے اور ایسی نص موجود نہیں۔ البتہ دو صورتوں میں نص موجود ہے:
➊ اگر مقررہ وقت سے پہلے قربانی کی جائے تو دوبارہ کرنی پڑے گی۔
➋ اگر کسی جانور کی نذر مانی گئی ہو تو اسے پورا کرنا ضروری ہے۔
امام مجاہد کے قول سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنی قربانی کے جانور کو بیچ کر اس سے بہتر جانور خرید سکتا ہے۔ امام عطاء کہتے ہیں: اگر کوئی جانور خریدنے کے بعد اسے پسند نہ آئے تو اس کے بیچنے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ حضرت علیؓ، امام شعبی، حسن اور عطاء سے اس تبدیلی کی کراہت منقول ہے۔ مگر امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ اس کراہت کی کوئی دلیل ہم تک نہیں پہنچی۔
نتیجہ
امام ابن حزم کے اس اقتباس سے واضح ہے کہ اگر متعین بچھیا کی بجائے کسی اور اچھی گائے کی قربانی کر لی جائے تو یہ جائز ہے۔ اس میں کوئی شرعی قباحت نظر نہیں آتی۔
مزید برآں، صورت مسئولہ میں ایک اور پہلو بھی غور طلب ہے:
◈ بچھیا کو قربانی کے لیے اس غلط فہمی کی بنیاد پر متعین کیا گیا کہ یہ نسل کشی کے قابل نہیں۔
◈ جب کہ اب یہ غلط فہمی ختم ہو گئی اور وہ نسل کشی کے قابل ثابت ہوئی ہے۔
یہ گویا ایک شرط تھی جو پوری نہ رہی۔ اصول ہے:
(اذا فات الشرط فات المشروط)
یعنی جب شرط باقی نہ رہے تو مشروط بھی ختم ہو جاتا ہے۔
لہٰذا بچھیا کی نامزدگی بھی خود بخود ختم ہو گئی۔ اس لیے اس صورت میں بچھیا کی بجائے کسی اور گائے کی قربانی کرنے میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب