قربانی کے جانور میں عیب پیدا ہونے کی صورت میں حکم، اجماع و اجتہاد کی شرعی حیثیت اور اہل حدیث کا موقف
ماخوذ : فتاوی علمیہ جلد1۔اصول، تخریج اورتحقیقِ روایات-صفحہ653

قربانی کے جانور میں عیب پیدا ہو جانے کے بعد اس کا حکم اور اجماع و اجتہاد کی شرعی حیثیت

جانور میں عیب پیدا ہونے کی صورت میں قربانی کا حکم

قربانی کے لیے جانور خریدنے کے بعد اگر اس میں کوئی واضح عیب پیدا ہو جائے، جیسے:

ٹانگ ٹوٹ جانا
آنکھ کا ضائع ہو جانا (کانا ہو جانا)

تو ایسی صورت میں کیا وہی جانور قربان کیا جائے یا اسے تبدیل کرنا ضروری ہے؟ اس مسئلہ کا جواب قرآن و سنت، آثار صحابہ اور اجماع امت کی روشنی میں دیا جا رہا ہے۔

عیب دار جانور کی قربانی کا شرعی حکم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"أَرْبَعَةٌ لَا يَجْزِينَ فِي الْأَضْاحِيِّ : الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا ، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا ، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا ، وَالْكَسِيرَةُ الَّتِي لَا تُنْقِي”

چار جانوروں کی قربانی جائز نہیں: واضح طور پر کانا، واضح طور پر بیمار، صاف طور پر لنگڑا اور ایسا کمزور جانور کہ اس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔

(سنن ابی داود: 2802، وسندہ صحیح، و صححہ الترمذی: 1497، وابن خزیمہ: 2912، وابن حبان: 1046، 1047، وابن الجارود: 481، 907، والحاکم: 1/467، ووافقہ الذہبی)

یہ حکم اس وقت ہے جب جانور خریدتے وقت ہی اس میں عیب موجود ہو۔

اگر خریدنے کے بعد عیب پیدا ہو جائے؟

اگر جانور خریدتے وقت صحیح سالم ہو اور بعد میں اس میں عیب آ جائے، تو کیا کیا جائے؟

سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

"ان كان اصابها بعد ما اشتر يتموها فأمضوها وان كان اصابها بل أن تشتروها فأبدلوها”

اگر یہ نقص تمہارے خریدنے کے بعد پیدا ہوا ہے تو اس کی قربانی کرلو، اور اگر یہ خریدنے سے پہلے کا ہے تو اسے بدل لو۔

(السنن الکبریٰ، جلد 9، صفحہ 289، وسندہ صحیح)

تابعین کی رائے

مشہور تابعی امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

اگر کوئی شخص قربانی کا جانور خریدے، پھر وہ اس کے پاس بیمار ہو جائے، تو اس جانور کی قربانی جائز ہے۔

(مصنف عبد الرزاق 4/386، حدیث: 8161، وسندہ صحیح، دوسرا نسخہ: 8192)

خلاصہ

➊ اگر جانور خریدتے وقت صحیح ہو اور بعد میں اس میں عیب آ جائے، تو اس کی قربانی جائز ہے۔
➋ اگر جانور پہلے سے عیب دار ہو، تو اسے بدلنا ضروری ہے۔

اجماع و اجتہاد کی شرعی حیثیت

اہل حدیث کا موقف

اہل حدیث اجماع امت کو شرعی حجت مانتے ہیں اور اجتہاد شرعی کے جواز کے قائل ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْ قَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ”

اللہ میری امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا، اور اللہ کا ہاتھ جماعت (یعنی اجماع) پر ہے۔

(المستدرک للحاکم: جلد 1، صفحہ 116، حدیث 299، وسندہ صحیح)
حاکم نیشاپوری نے اسی حدیث سے اجماع کے حجت ہونے پر استدلال کیا۔

آثار صحابہ سے اجماع کا ثبوت

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قاضی شریح رحمہ اللہ کو لکھا:

"اگر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں نہ ملے، تو دیکھنا کس بات پر لوگوں کا اجماع ہے، پھر اسے لے لینا۔”

(مصنف ابن ابی شیبہ: 7/240، حدیث 22980، الدارمی: 169، ماہنامہ الحدیث حضرو: 37، صفحہ 48)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول:

"فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ ، وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ”

"جو چیز تمام مسلمان اچھا سمجھیں، وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے۔”

(المستدرک للحاکم 3/78، حدیث 4465، وسندہ حسن، و صححہ الحاکم، ووافقہ الذہبی)

سیدنا ابو مسعود عقبہ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ کا قول:

"عليكم بتقوى الله ، وهذه الجماعة ، فإن الله لا يجمع أمة محمد ﷺ على ضلالة”

(الفقیہ والمتفقہ للخطیب: 1/167، وسندہ صحیح)

اقوال ائمہ کرام

امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب الرسالہ میں اجماع کے حجت ہونے پر تفصیل سے دلائل ذکر کیے:
(الرسالہ، صفحات: 471–476، فقرہ 1309 تا 1320)

حافظ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"أن الإجماع من علماء أهل الإسلام حجة وحق مقطوع به في دين الله عز وجل”

"علمائے امت کا اجماع دین اسلام میں ایک قطعی حجت اور حق ہے۔”

(الاحکام فی اصول الاحکام، جلد اول، حصہ چہارم، صفحہ 525)

امام ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"الا ان يوجد علمه في كتاب اوسنة او اجماع”

"سوائے اس کے کہ اس کا علم قرآن، سنت یا اجماع میں پایا جائے۔”

(کتاب الطہور للامام ابی عبید، صفحہ 124، قبل حدیث 335)

برصغیر کے اہل حدیث علماء کا موقف

حافظ عبد اللہ غازیپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"واضح رہے کہ ہمارے مذہب کا اصل الاصول صرف اتباع کتاب و سنت ہے… اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اہل حدیث کو اجماع امت و قیاس شرعی سے انکار ہے، کیونکہ جب یہ دونوں کتاب و سنت سے ثابت ہیں تو کتاب و سنت کے ماننے میں ان کا ماننا آگیا۔”

(ابراء اہل حدیث والقرآن، باب اہل حدیث کے اصول و عقائد، صفحہ 32)

اجتہاد کا جواز اور اس کی اقسام

اجتہاد کا جواز کئی احادیث سے ثابت ہے۔ مثال کے طور پر:

حدیث اجتہاد

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لايصلين أحد العصر إلا في بني قريظة”

"بنو قریظہ کے پاس پہنچنے سے پہلے عصر کی نماز کوئی نہ پڑھے”

بعض صحابہ نے راستے میں نماز پڑھ لی جبکہ بعض نے بنو قریظہ جا کر نماز پڑھی۔ نبی کریم ﷺ نے کسی کو برا نہیں کہا۔

(صحیح بخاری: 946، صحیح مسلم: 1770)

اجتہاد کی شرائط

✿ نص (قرآن، حدیث یا اجماع) نہ ہو۔
✿ نص کا مفہوم واضح نہ ہو۔

ایسے حالات میں اجتہاد جائز ہے، مگر یہ اجتہاد عارضی اور وقتی ہوتا ہے، اسے مستقل قانون کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔

اجتہاد کی اقسام

➊ آثار سلف صالحین کو ترجیح دینا
➋ اولیٰ کو اختیار کرنا
➌ قیاس کرنا (مگر نص کے مقابلے میں مردود ہے)
➍ مصالح مرسلہ (یعنی عمومی مصلحت کو مدنظر رکھنا)

اہل تقلید کی تنگ نظری

بعض اہل تقلید کا یہ نظریہ ہے کہ:
✿ صرف ان کے اپنے امام کا اجتہاد ہی حجت ہے۔
✿ دیگر ائمہ کے اقوال ان کے لیے قابل قبول نہیں۔

مثالیں:

محمد قاسم نانوتوی نے فرمایا:
"میں مقلد امام ابو حنیفہ کا ہوں… امام ہی کا قول میرے لیے حجت ہے، دوسروں کا نہیں۔”
(سوانح قاسمی، جلد 2، صفحہ 22)

محمود حسن دیوبندی نے لکھا:
"سوائے امام کے، کسی اور کے قول سے ہم پر حجت قائم کرنا بعید از عقل ہے۔”
(ایضا حال ادلہ، صفحہ 276، سطر 19–20)

احمد یار خان نعیمی بریلوی نے لکھا:
"حنفیوں کے دلائل روایتیں نہیں بلکہ امام کا قول ہے۔”
(جاء الحق، حصہ دوم، صفحہ 9)

"ہماری اصل دلیل امام ابو حنیفہ کا قول ہے، احادیث صرف تائید کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔”
(جاء الحق، حصہ دوم، صفحہ 91)

اہل حدیث کا اصول

اہل حدیث ایسی تنگ نظری اور باطل تقلید کو رد کرتے ہیں۔ وہ مسائل میں اجتہاد کے قائل ہیں:
✿ بشرطیکہ واضح دلیل موجود نہ ہو۔
✿ اور اجتہاد جمہور سلف صالحین کی ترجیح سے ہو۔

جو شخص اجتہاد نہیں کرتا، اس پر ملامت نہیں؛ مگر اجتہاد کرنا اصول شریعت کے مطابق جائز ہے۔

(19 جون 2008، الحدیث: 52)

نتیجہ

➊ اگر قربانی کے جانور میں خریدنے کے بعد عیب پیدا ہو جائے، تو اس کی قربانی جائز ہے۔
➋ اہل حدیث اجماع اور اجتہاد دونوں کو شرعی حجت مانتے ہیں، بشرطیکہ وہ قرآن و سنت سے ہم آہنگ ہوں۔
➌ اجتہاد دائمی قانون نہیں، بلکہ وقتی رہنمائی ہے۔
➍ اندھی تقلید کی مخالفت اور دلیل پر مبنی تحقیق ہی اہل حدیث کا طریقہ ہے۔
"وما علینا إلا البلاغ”

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1