قربانی کے جانوروں کے گلے میں پٹے ڈالنا
تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

باب الهدي
قربانی کا بیان
الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ: عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ { فَتَلْتُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . ثُمَّ أَشْعَرْتُهَا وَقَلَّدَهَا – أَوْ قَلَّدْتُهَا – ثُمَّ بَعَثَ بِهَا إلَى الْبَيْتِ . وَأَقَامَ بِالْمَدِينَةِ ، فَمَا حَرُمَ عَلَيْهِ شَيْءٌ كَانَ لَهُ حِلًّا } .
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے پٹے میں نے خود بٹے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا اشعار کیا اور انھیں پٹا پہنایا، یا (فرمایا کہ ) میں نے انھیں پٹا پہنایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بیت اللہ کی طرف روانہ کر دیا اور آپ مدینہ میں ہی ٹھہرے رہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی بھی ایسی چیز حرام نہیں ہوئی جو آپ کے لیے حلال تھی۔
شرح المفردات:
الهدي : اونٹ، گائے اور بکری وغیرہ میں سے کوئی بھی جانور جو قربانی کے لیے بیت اللہ الحرام میں لے جایا جائے اس ھدی کہا جاتا ہے۔
قلائد: یہ قلادہ کی جمع ہے۔ وہ پٹے جانوروں کے گلے میں ڈالے جاتے ہیں۔
أشعرها: إشعار کا مطلب یہ ہے کہ قربانی کے اونٹ کی کوہان کی دائیں جانب اتنا سا زخم لگا دینا کہ جس سے خون بہہ پڑے، یہ اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ یہ قربانی کا جانور ہے، لہٰذا کوئی چور اور ڈاکو اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ اشعر: واحد مذکر غائب فعل ماضی معلوم ، باب افعال۔
شرح الحديث:
یعنی احرام سے پہلے صرف قربانی کا جانور بیت اللہ بھیجنے سے کوئی چیز حرام نہیں ہوتی ۔
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اونٹ کا اشعار کیا جائے اور بکری کو پٹا پہنایا جائے ۔ [الفروع لابن مفلح: 402/3]
(234) صحيح البخاري، كتاب الحج، باب من أشعر و قلد بذي الحليفة ثم أحرم ، ح: 1609 – صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب استحباب بعث الهدى الى الحرم لمن لا يريد الذهاب بنفسه ، ح: 1321

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل