قربانی کے جانوروں سے متعلق احکامات قرآن و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ: عشرۂ ذی الحجہ اور قربانی فضائل احکام اور مسائل، مصنف : عبد المنان عبد الحنان سلفی

کن جانوروں کی قربانی مشروع ہے ؟
علماء و فقہاء کے صحیح قول کے مطابق قربانی صرف ان جانوروں کی مشروع ہے جن «بهيمة الأنعام» کا اطلاق ہوتا ہے، اور با تفاق علماء، فقہاء اور مفسرین نے لکھا ہے۔ وہ چار قسم کے جانور ہیں، ان کی صراحت قرآن کریم میں بھی آئی ہوئی ہے : ➊ اونٹ ➋ گائے ➌ بکری ➍ بھیڑ
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا :
«وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ» [22-الحج:34]
”اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چو پائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔“
اور سورۃ الأنعام میں اللہ تعالیٰ نے انعام کی تفصیلات کے ضمن میں بھی انہیں چاروں چوپایہ جانوروں کا ذکر فرمایا ہے اور ان کے نر مادہ دونوں کو ملا کر آٹھ اصناف بتائے ہیں، گو کہ یہ بیان قربانی کے حوالہ سے نہیں تا ہم الأنعام کی تفصیلات اس سے بخوبی سا منے آ جاتی ہیں۔
اس لئے مسلمانوں کو مذکورہ جانوروں میں سے جس کی قربانی میسر ہو کرنی چاہئے، جن مقامات پر گائے کے ذبیحہ پر پابندی ہے وہاں کے مسلمانوں کو اس کی قربانی سے احتراز کرنا چاہیے مبادا تقرب الہی کے حصول کا یہ ذریعہ مسلمانوں کے لئے فتنہ نہ بن جائے، اللہ بڑا حکیم ہے، اس کا کوئی بھی حکم حکمت سے خالی نہیں، قربانی کے لئے ایک ہی صنف کے جانور کی تخصیص نہ کر کے چار اصناف کے جانوروں تک جو وسعت دی گئی ہے وہ بھی اسی حکمت الہی کا حصہ ہے، اگر ایک جانور میں کوئی دقت اور زحمت ہے تو دیگر متبادل موجود ہیں۔

بھینس کی قربانی ؟
بھینس کی قربانی کا مسئلہ مختلف فیہ ہے تاہم یہ بات قطعی ہے کہ کسی بھی نص میں بھینس کی قربانی کا ذکر وارد نہیں، البتہ جن علماء نے بھینس کی قربانی جائز قرار دی ہے انہوں نے اسے گائے کی ایک قسم قرار دیا ہے مگر یہ درست نہیں، اس لئے کہ گائے اور بھینس دونوں کے رنگ، روپ، مزاج اور دودھ کی تاثیر اور دوسری چیزوں میں بڑا نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے بھینس کی قربانی کو درست نہیں مانا ہے ان کی دلیل
یہ ہے کہ بہیمۃ الأنعام کا اطلاق بھینس پر نہیں ہوتا، اس لئے اس کا کھانا تو جائز ہے مگر اس کی قربانی مشروع نہیں۔ اس لئے احتیاط اسی میں ہے کہ بھینس کی قربانی سے احتراز کیا جائے اور اگر استطاعت ہو تو بکرا، بکری، بھیڑ، بھیڑی یا اونٹ ہی کی قربانی کی جائے۔
شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر بحث کرنے کے بعد لکھا ہے کہ «و الأحوط عندى أن يقتصر الرجل فى الأضحية على ما ثبتت بالسنة الصحيحة قولا و فعلا و تقريرا، و لا يلتفت إلى ما لم ينقل عن النبى صلی اللہ علیہ وسلم ولا الصحابة والتابعين رضي الله عنهم» یعنی میرے نزدیک زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ آدمی صرف ان جانوروں کی قربانی پر ا کتفا کرے جن کا ثبوت صحیح حدیثوں سے قولاً، فعلاً اور تقریراً ہے، اور ایسے جانوروں کی قربانی کا ارادہ نہ کرے جن کی قربانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ عنہم سے منقول نہیں ہے۔
[مرعاة المفاتيح : 354/2]

کس جانور کی قربانی افضل ہے ؟
یہ مسئلہ بھی مختلف فیہ ہے، امام احمد بن حنبل، امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمها اللہ کا خیال ہے کہ سب سے افضل قربانی اونٹ کی، پھر گائے کی، پھر دنبہ اور بکرے کی ہے۔ بشرطیکہ اونٹ اور گائے کی قربانی ایک شخص کی جانب سے ہو اور ان میں شرکت نہ ہو۔ ان حضرات کا استدلال حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے ہے جس میں نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن پہلے آنے والوں کی فضیلت اور ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جس نے جمعہ کے دن غسل جنابت کیا، پھر پہلی گھڑی میں مسجد آیا تو اسے ایک اونٹ کی قربانی کا ثواب ملے گا، اور جو دوسری گھڑی میں آیا اسے گائے کی قربانی کا ثواب دیا جائے گا، اور جو شخص اس کے بعد آیا اسے ایک دنبہ کی قربانی کا ثواب ملے گا پھر اسی طرح بعد میں آنے والوں کے ثواب کا ذکر ہے یہاں تک کہ خطیب خطبہ کے لئے منبر پر بیٹھ جائے۔ [بخاري و مسلم]
افضلیت اور زیادہ ثواب کے لئے مذکورہ حدیث میں جانوروں کی جس ترتیب کا لحاظ رکھا گیا ہے اس پر قیاس کرتے ہوئے مذکورہ علماء کا خیال ہے کہ نسک اور قربانی میں بھی افضلیت کی یہی ترتیب ہو گی۔
بعض علماء نے دنبہ اور بعض نے ”جذعہ ضان“ کی قربانی کو افضل بتایا ہے، اس لئے کہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سینگ والے مینڈھوں (دنبوں) کی قربانی کی، نیز ایک روایت میں آپ کا یہ ارشاد بھی ذکر ہوا ہے کہ «نعمت الأضحية الجذع من الضأن» ”یعنی بھیڑ کا جزعہ قربانی کے لئے بہت اچھا ہے۔“ یہ جامع ترمذی کی روایت ہے، اور امام ترمذی نے خود اسے ”غریب“ قرار دے کر اس کے ضعف کی جانب اشارہ فرما دیا ہے، نیز محققین علماء کے نزدیک اس روایت کا مرفوع کے مقابلہ موقوف ہونا ہی صحیح ہے۔ شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے مفہوم کے تعلق سے لکھا کہ اس سے قربانی کے لئے مطلقاً ”جذعہ ضان“ کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی ہے، بلکہ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ”جذعہ ضان“ کی قربانی جائز ہے اور ”جذعہ معز“ کی قربانی درست نہیں : «مدحه صلی اللہ علیہ وسلم ليعلم الناس أنه جائز فى الأضحية بخلاف الجذع من المعز فإنها لا تجزئ»۔۔ تفصیل کے لئے مرعاۃ المفاتیح : 361/2 ملاحظہ کریں۔
جذعہ ضان : بھیڑ کا بچہ جب ایک سال کا مکمل ہو کر دوسرے سال میں قدم رکھ دے۔
جذعہ معز : بکری کا وہ بچہ جو مکمل ایک سال کا ہو جائے اور دوسرے سال میں قدم رکھ دے۔
تفصيل كے لئے فتح الباري شرح صحيح مسلم للنووي، تحفة الأحوذي اور دیگر شروحات حدیث کی جانب رجوع کیا جائے۔

قربانی کے جانوروں میں شرکت :
احادیث کے مطابق بکرے اور بھیڑ و دنبہ میں شرکت نہیں، ان جانوروں کی قربانی ایک تصور ہوگی اور صرف ایک گھر کی جانب سے کفایت کرے گی، البتہ اونٹ اور گائے میں ایک سے زائد لوگ شریک ہو سکتے ہیں، اونٹ میں دس اور گائے میں سات لوگ شریک ہو سکتے ہیں، بعض روایات کے اندر اونٹ میں بھی سات حصوں کا ذکر وارد ہوا ہے، کچھ علماء نے اسے توسیع پر محمول کیا ہے۔ یعنی اونٹ میں سات گھرانے بھی شریک ہو سکتے ہیں اور دس گھر والے بھی اور بعض نے سات والی روایت کو ”هدي“ پر محمول کیا ہے اور دس والی روایت کو قربانی پر۔
بڑے جانوروں کی قربانی اگر کوئی تنہا بغیر کسی اور کو شریک کئے کرے تو جائز ہی نہیں افضل ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ : «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نحرعن آل محمد فى حجة الوداع بقرة واحدة» [صحيح ابن ماجه : 3135، صحيح سنن أبى داؤد : 1536]
یعنی حجۃ الوداع کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آل محمد کی جانب سے ایک گائے کی قربانی فرمائی۔

قربانی کے جانور میں مطلوبہ اوصاف :
احادیث کی روشنی میں بنیادی طور پر قربانی کے جانور میں دو امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے :
➊ جانور دانتا ہو یعنی اس کے نیچے کے دودھ والے کم از کم دو دانت خود سے گر چکے ہوں۔
➋ ظاہری عیوب سے پاک، خوبصورت، تندرست اور صحت مند ہو۔

قربانی کے جانور کا دانتا ہونا :
اس سلسلہ میں اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان کافی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانور کے سلسلہ میں یہ ہدایت فرمائی ہے کہ : «لاتذبحوا إلا مسنة إلا أن يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضأن» [مسلم]
”یعنی قربانی میں صرف دانتا ہی ذبح کرو، الا یہ کہ دانتا ملنا تمھارے لئے مشکل ہو تو بھیڑ کا جذعہ (ایک سال کی عمر والا) ذبح کرو۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے لئے اصلاً ہر جانور کا دانتا ہونا ضروری ہے۔ اور دانتا جانور نہ ملنے کی صورت میں ایک سال والے بھیڑ کی قربانی درست ہے خواہ وہ دانتا نہ بھی ہو۔
حدیث میں لفظ ”مسنہ“ کا صحیح مفہوم ازروئے لغت و شرح حدیث یہی ہے کہ وہ دانت جائے یعنی اس کے دودھ کے نیچے والے دو دانت از خود گر جائیں، اور ”جذعہ“ کا صحیح معنی یہ ہے کہ بھیڑ یا بکری کم از کم ایک سال کی ہو کر دوسرے سال میں قدم رکھ دے۔ (مسنہ اور جذعہ کی تحقیق کے لئے خطیب الاسلام علامہ عبد الرؤف رحمانی رحمہ للہ کے مختصر تحقیقی رسالہ ”تحقیق مسنہ“ کی جانب رجوع کیا جائے۔)
بغیر دانتے جانور کی قربانی درست نہ ہونے کی ایک بہت واضح دلیل حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میرے ماموں ابو بردہ رضی اللہ عنہ نے نماز عید سے قبل ہی قربانی کر لی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا ”تمھاری بکری تو محض گوشت کی بکری ہوئی۔“ (یعنی اس کی قربانی نہیں ہوئی، البتہ وہ تمہارے کھانے ہی کے کام آئے گی) انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ! میرے پاس تقریبا ایک سال عمر کا ایک بکری کا بچہ ہے (کیا میں اس کی قربانی دے دوں ؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اس کو ذبح کر ڈالو لیکن تمہارے بعد (اس عمر کے جانور کی قربانی) کسی اور کے لئے درست نہ ہو گی۔“ حدیث کے الفاظ یہ ہیں : «فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم شأتك شأة لحم، فقال يا رسول الله صلى الله عليه وسلم ! إن عندي داجنا جذعة من المعز، قال إذبحها و لن تصلح الغيرك»۔ [بخاري، مسلم]

قربانی کے جانور کا تبادلہ :
اگر کسی نے قربانی کے لئے جانور پالا مگر وہ قربانی کے وقت تک دانت نہ نکال سکے تو جائز ہے کہ وہ اسے فروخت کر کے اس سے بہتر جانور خرید کر قربانی کرے (بشرطیکہ اس سے بہتر جانور خریدنے کی استطاعت ہو)، جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے اس کی ا جازت دی ہے۔ [المدونة : 3/2]
نیز شیخ محمد بن صالح العثمین رحمہ اللہ نے [الشرح الممتع : 509/7] میں بھی اس شرط کے ساتھ جانور کے تبادلہ کی ا جازت دی ہے کہ اس سے بہتر خریدا جائے، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ ایک شخص نے (فتح مکہ کے موقعہ پر) اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے نذر مانی ہے کہ اگر اللہ آپ کو مکہ کی فتح نصیب فرمائے گا تو میں بیت المقدس میں نماز پڑھوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «صل هاهنا» تم یہیں مکہ میں نماز پڑھ لو، اس لئے کہ یہ جگہ بیت المقدس سے افضل ہے، اس شخص نے پھر اپنی بات دہرائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی جواب دیا اور فرمایا «فشأنك إذن» تب جیسی تمھاری مرضی !۔ [صحيح سنن أبى داؤد، الإ رواء : 972]
اور علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے لکھا کہ امام احمد، امام عطاء، امام مالک، امام ابوحنیفہ اور امام محمد بن حسن رحمهم اللہ وغیرہ بھی جواز کے قائل ہیں، ابن قدامہ نے مزید لکھا کہ قربانی کے جانور کا تبادلہ وقف کے احکام سے ملتا جلتا ہے، جیسے موقوف شی کا تبادلہ اس کے جنس سے جائز ہے قربانی کا تبادلہ بھی اس جیسے جانور یا اس سے بہتر جانور سے درست ہے۔
[المغني : 383،383/13]
ان علماء کے اقوال کی روشنی میں شیخ مصطفى بن اسماعیل السلیمانی نے صراحت کی ہے کہ میرے نزدیک جمہور کا مسلک زیا دہ راجح ہے، یعنی جانور کا تبادلہ اس سے بہتر جانور سے کیا جا سکتا ہے لیکن کم قیمت والے سے تبادلہ درست نہیں ہے۔ [تنوير العينين بأحكام الأضاحي والعيدين : 380]

صحت مند اور اچھا ہونا :
اس سلسلہ میں ایک دلیل تو عام ہے جس میں ہر قسم کی مالی عبادات اور صدقہ و خیرات کے سلسلہ میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اجر و ثواب صرف اس چیز کے خرچ پر ملے گا جو خرچ کرنے والے کی نظر میں سب سے زیادہ محبو ب ہو، یہ بات قرآن کریم کی متعدد آیات میں کہی گئی ہے اور بعض احادیث میں بھی غلام وغیرہ آزاد کرنے کے حوالہ سے اسی کی جانب اشارہ ہوا ہے، یہاں قرآن کریم کی صرف ایک آیت کریمہ نقل کرنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
«لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ» [3-آل عمران:92]
”جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی ثواب نہ پاؤ گے، اور تم جو خرچ کرو اللہ تعالیٰ اسے بخوبی جانتاہے۔“
اس کے علاوہ قربانی کے جانور کے تعلق سے متعدد احادیث میں خصوصی ہدایات بھی وارد ہیں، اس سلسلہ کی بعض روایات آگے ذکر کی جاتی ہیں :
تندرست اور موٹا تگڑا جانور :
➊ حضرت ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ «كنا نسمن الأضحية بالمدينة وكان المسلمون يسمنون» [بخاري]
”یعنی تم لوگ مدینہ میں قربانی کے جانوروں کو موٹا کرتے تھے اور سارے مسلمان بھی انہیں موٹا کرتے تھے۔“
➋ حضرت عائشہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم كان إذا أراد أن يضحي، اشترى كبشين عظيمين، سمينين، أقرنين، أملحين، موجوئين» [صحيح ابن ما جه : 3122، مسند أحمد : 225]
”یعنی اللہ کے رسول جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو تگڑے، موٹے، سینگ والے، چتکبرے اور خصی شدہ دنبے (مینڈھے) خریدتے۔“
ان احادیث سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ قربانی کے جانور کا موٹا تگڑا ہونا افضل ہے۔ آدمی اپنے گھر پالے تو اسے کھلا پلا کر موٹا کرے اور اگر خریدے تو حسب حیثیت موٹا اور تگڑا خریدے۔ لیکن اگر پال رہا ہے تو دوسروں کا کھلا کر نہیں جیسا کہ دیکھا جاتا ہے کہ گاؤں میں قربانی کے جانور آزاد چھٹے رہتے ہیں، یہ درست نہیں ہے۔

خوبصورت جانور :
صحت مند اور موٹا تگڑا ہونے کے ساتھ اگر قربانی کا جانور خوبصورت بھی ہو تو افضل ہے، چناچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بكبش أقرن، يطأ فى سواد، و يبرك فى سواد، وينظر فى سواد» [مسلم]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے لئے سینگ والا مینڈھا لانے کو کہا جس کے ہاتھ، پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں۔“
ان صفات کا حامل دنبہ یا بکرا ظاہر ہے دیکھنے میں خوبصورت لگتا ہے، اسی طرح اوپر ذکر کی گئی حضرت عائشہ و ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کے اندر سینگ دار اور چتکبرے مینڈھوں کا ذکر بھی آیا ہے، اس سے بھی پتہ چلتا ہے قربانی کے لئے جہاں تک ممکن ہو خوبصورت جانور ہی کا انتخاب کرنا افضل ہے۔

مندرجہ ذیل عیوب سے پاک ہونا ضروری ہے :
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«أربع لا تجوز فى الأضاحي، العوراء البين عورها، و المريضة بين مرضها، و العرجاء بين ظلعها، و الكسير التى لا تنقي» [صحيح أبو داؤد، ترمذي، ابن ما جه]
یعنی قربانی میں چار قسم کے عیوب والے جانور درست نہیں : (1) ایسا کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو (2) ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو (3) ایسا واضح لنگڑا جس کا لنگرا پن نمایاں ہو (4) ایسا کمزور جس میں چربی نہ ہو۔
ایک روایت میں ”الکسیر“ کے بجائے ”العجفاء“ کا ذکر ہے جس کے معنی بھی نہایت لاغر اور کمزور ہی کے ہوتے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم آنکھ اور کان خوب اچھی طرح دیکھ لیں اور کان کٹے، پھٹے یا چیرے اور دم کٹے جانور کی قربانی نہ کریں :
«أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نستشرف العين و الأذن و أن لا نضحي بمقابلة ولا بمدابرة ولا ببتراء» [صحيح أبى داؤد، ترمذي]
دوسری حدیثوں میں ان جانوروں کی قربانی سے بھی ممانعت آئی ہے :

«المصفرة :» جس جانور کے سرے سے کان ہی نہ ہو یا وہ بہت کمزور ہو۔
«المستأصلة :» جس جانور کی سینگ جڑ سے ٹوٹی ہوئی ہو۔
«أعزب القرن و الآذان :» جس جانور کا کان یا سینگ نصف یا ایک چوتھائی سے زائد کٹا ہو۔
«المقابلة :» ایسا جانور جس کا کان آگے سے کٹا ہو اور آگے سے لٹک رہا ہو۔
«المدابرة :» ایسا جانور جس کا کان پیچھے سے کٹا ہو اور پیچھے سے لٹک رہا ہو۔
«شرقاء :» ایسا جانور جس کا کان لمبائی میں کٹا ہو۔
«خرقاء :» ایسا جانور جس کے کان میں گول سوراخ ہو یا اس کا کان چوڑائی میں کٹا ہو۔
«بتراء :» دم کٹا جانور۔

خصی ہونا عیب نہیں :
یہ بات معروف ہے جانور کا خصی کرنا اسے اچھا بنانے کے لئے ہوتا ہے نہ کہ اسے عیب دار کرنے کے لئے، اس لئے کسی جانور کا خصی ہونا عیب نہیں شمار ہوگا، لہٰذا اس کی قربانی میں کوئی حرج نہیں، دوسری بات یہ کہ خصی مینڈھے کی قربانی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس لئے اس کی قربانی نہ صرف جائز بلکہ مسنون اور مستحب ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ «أن النبى صلی اللہ علیہ وسلم إذا أراد أن يضحي اشترى كبشين عظيمين سمينين أقرنين أملحين موجوئين» یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو تگڑے، موٹے سینگ والے، چتکبرے اور خصی مینڈھے دنبے خریدتے۔
[صحيح سنن ابن ما جه : 2531]
شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح فرماتے ہوئے لکھا کہ «قال الخطابي : فى هذا دليل على أن الخصي فى الضحايا غير مكروه، وقد كرهه بعض أهل العلم لنقص العضو، و هذا نقص و ليس بعيب، لأن الخصاء يزيد اللحم طيبا و ينفى فيه الزهومة و سوء الرائحة»
امام خطابی نے لکھا کہ یہ حدیث دلیل ہے کہ خصی کی قربانی مکروہ نہیں ہے بعض اہل علم نے اس بناء پر اس کی قربانی کو مکروہ قرار دیا ہے کہ اس کے عضو میں نقص آگیا، (ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہئے) کہ نقص تو آیا مگر اسے عیب نہیں کہا جا سکتا، اس لئے کہ خصی کرنے سے جانور کا گو شت لذیز اور اچھا ہو جاتا ہے اور اس کی مخصوص بدبو بھی ختم ہو جاتی ہے۔ [مرعاة المفاتيح : 35822]

خریدنے کے بعد اگر جانور عیب دار ہو جائے ؟
اگر جانور خریدنے کے بعد حادثاتی طور پر ایسا عیب دار ہو جائے جس کی قربانی سے احادیث میں ممانعت آئی ہے۔ مثلاً چوٹ لگنے سے لنگڑا یا کانا ہو جائے یا اس کی سینگ ٹوٹ جائے یا کان کٹ جائے وغیرہ تو اگر آدمی صاحب حیثیت ہے اور اس کی جگہ کوئی بے عیب جانور خرید سکتا ہے تو اسے عیب دار جانور فروخت کر کے اس کی قیمت سے یا کچھ مزید رقم لگا کر بے عیب جانور خرید لینا چاہئے اور عیب دار جانور کی قربانی سے احتراز کرنا چاہئے، اور اگر آدمی کو دوسرا جانور خریدنے کی استطاعت نہیں تو اس سے یہ سنت موکدہ ساقط ہو جائے گی۔
تاہم بعض علماء نے بصورت مجبوری ایسے جانور کی قربانی کو درست کہا ہے جو قربانی کی نیت کے بعد عیب دار ہو جائے، انہوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت سے استدلال کیا ہے کہ ہم نے قربانی کے لئے ایک دنبہ خریدا، پھر اس پر بھیڑئے نے حملہ کر کے اس کی سرین یا کان کو زخمی کر دیا، ہم نے اس کی بابت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی کی قربانی کا حکم دیا لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے اور اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے ”ضعیف الإسناد جدا“ کہا ہے۔ [سنن ابن ماجه : 3146]

قربانی کا وقت :
قربانی کا وقت یوم النحر 10 ذی الحجہ کو نماز عید کی ادائیگی کے بعد شروع ہوتا ہے جو ایام تشریق کے آخری دن یعنی 13 ذی الحجہ قبل مغرب تک باقی رہتا ہے۔
جس شخص نے نماز عید سے قبل قربانی کر دی اس کی قربانی درست نہ ہوگی، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «من ذبح قبل الصلاة فإنما ذبح لنفسه و من ذبح بعد الصلاة فقد تم نسكه و أصاب سنة المسلمين» [بخاري و مسلم]
”یعنی جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کی اس نے اپنے کھانے کے لئے ذبح کیا اور جس نے نماز کے بعد قربانی کا جانور ذبح کیا تو اس کی قربانی پوری ہوگی اور اس نے مسلمانوں کی سنت طریقہ کو پالیا۔“
اسی طرح حضرت جندب بن سفیان بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «من كان ذبح قبل أن يصلي فليذبح مكانه أخرى» [بخاري و مسلم]
”یعنی جس نے قبل نماز قربانی کی اسے اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرنا چاہئے۔“
صحیح مرفوع احادیث کی روشنی میں عید الاضحی کا دن چھوڑ کر قربانی کے تین ایام مزید ہیں، احادیث کی رو شنی میں یہی بات راجح اور قوی ہے، چنانچہ اس تعلق سے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بہت واضح ہے جس میں نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «كل أيام التشريق ذبح» [صحيح مسند أحمد : 82/4، صحيح ابن حبان : 3854، السنن الكبرى : 239/5، صحيح الجامع الصغير : 4537]
”یعنی ایام تشریق کے تمام دن قربانی کے ہیں۔“
اور ایام تشریق بالا اتفاق 11، 12 اور 13 ذی الحجہ کو کہا جاتا ہے۔
نیز سورۃ الحج میں اللہ تعالیٰ نے حج اور اس کے فوائد ذکر کرنے کے بعد «ايام معلومات» میں چوپایہ پالتو جانوروں پر اللہ کا نام لینے یعنی قربانی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
«وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ» [22-الحج:28]
اس آیت کریمہ کی تفسیر فرماتے ہوئے مولانا حافظ صلاح الدین یوسف رقم طراز ہیں :
«ايام معلومات» سے ذبح کے ایام ”ایام تشریق“ ہیں، جو یوم انحر 10 ذی الحجہ اور تین دن اس کے بعد، یعنی 11، 12 اور 13 ذی الحجہ تک قربانی کی جا سکتی ہے۔
جن علماء وائمہ نے یوم انحر کے بعد صرف دو دن تک ہی قربانی کی ا جازت دی ہے انہوں نے بعض صحابہ کے آثار سے استدلال کیا ہے مگر ظاہر ہے صحیح مرفوع حدیث کے مقابلہ میں وہ آثار قابل عمل نہیں ممکن ہے ان صحابہ تک یہ حدیث نہ پہونچی ہو اس لئے وہ تو معذور ہیں، تاہم جن لوگوں کے سامنے یہ حدیثیں ہیں کم از کم انہیں تو سنت پر عمل کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہونی چاہئے۔ اس لئے بلا قیل وقال اس حدیث پر عمل ہونا چاہئے اور جو آدمی 13 ذی الحجہ کو قربانی کرے اسے مطعون نہ کرنا چاہئے، بلکہ مناسب ہے کہ جو حضرات ایک سے زائد قربانی کرنا چاہیں وہ اس سنت مہجورہ کو زندہ کرنے کے لئے ایام تشریق کے آخری دن یعنی 13 ذی الحجہ کو قربانی کا اہتمام کریں۔

قربانی کے لیے افضل دن :
صحیح احادیث کی روشنی میں اور سنت نبوی کے مطابق «يوم النحر» یعنی 10 ذی الحجہ کو قربانی کرنا افضل ہے، جیسا کہ اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : «إن أعظم الأيام عند الله يوم النحر ثم يوم القر» [صحيح سنن أبى داؤد]
یعنی بیشک دنوں میں سب سے عظیم دن اللہ کے نزدیک یوم النحر 10 ذی الحجہ ہے پھر یوم القر یعنی دوسرا دن۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواترہ قربانی کے سلسلہ میں یہی منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ہمیشہ پہلے دن ہی قربانی کرتے رہے اور حجۃ الوداع کے موقعہ پر منی میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹوں کی قربانی پہلے ہی روز فرمائی، چنانچہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا اور مسلمانوں کا طریقہ قربانی کے تعلق سے ان الفاظ میں بیان فرمایا : «إن أول ما نبدأ به فى يومنا هذا نصلي ثم نرجع فننحر، من فعله فقد أصاب سنتنا» [صحيح بخاري]
”یعنی آج عید الاضحی کے دن ہم سب سے پہلے نماز ادا کرتے ہیں پھر واپس آکر قربانی کرتے ہیں، جس نے ایسا کیا ہمارے طریقہ کو پاگیا۔“
اس لئے جس کے پاس ایک یا ایک سے زائد قربانی ہو وہ پہلے ہی دن قربانی کرے، بالخصوص اگر ایک ہی جانور ہو تو افضل دن کو گوانا مناسب نہیں، بہت سارے لوگ کسی عزیز یا رشتہ دار کی آمد کو بنیاد بنا کر خود کو افضل دن کی قربانی سے محروم کر لیتے ہیں جو کسی طرح بہتر نہیں، قربانی کا اصل مقصد حصول اجر و ثواب ہے نہ کہ گو شت خوری اور ضیافت۔

قربانی کا طریقہ اور اس کی دعائیں :
قربانی کے جانور کو ذبح کرتے ہوئے قبلہ رخ لٹانا مسنون ہے، جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے، ذبح کرتے وقت کئی دعائیں احادیث میں ذکر ہوئی ہیں، ان میں سے کوئی بھی دعا پڑھی جا سکتی ہے :
➊ «انى وقؤجھت وجهي للذي فطر السموات و الأرض حنیفا وما أنا من المشركين، ان صلاتي و نسکي و محياي و مماتي لله رب العالمين، لا شريك له و بذلک أمرت و انا اول المسلمين، اللهم ! منک ولك عين» (نام لے) «بسم الله الله اكبر»۔ پھر ذبح کرے۔ [سنن ابي داؤد]
علامہ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے تاہم بعض دوسرے محدثین نے اس کا حسن ہونا ثابت کیا ہے۔
➋ «بسم الله الله اكبر» یہ دعا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو چتکبرے سینگ والے مینڈھوں کی قربانی فرمائی، انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور «بسم الله الله اكبر» پڑھا۔
➌ «بسم الله والله اكبر، هذا عني» یا «عن» (نام لیا جائے)۔ [صحيح سنن ابي داود : 2436]
➍ «بسم الله، اللهم تقبل من» (نام لیا جائے) [صحيح مسلم]
افضل ہے کہ اپنی قربانی آدمی خود ذبح کرے، متعدد حدیثوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قربانی ذبح کرنے کا ذکر وارد ہے، چنانچہ صحیحین کی وہ روایت جو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سینگ والے چتکبرے مینڈھوں کی قربانی فرمائی، اور ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا «ذبحهما بيده» [صحيح بخاري و صحيح مسلم]
اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی صحیح مسلم کی روایت سے بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے چھری منگائی اور اپنے ہاتھ سے ذبح فرمایا، حجۃ الوداع میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے 63 اونٹ ذبح کئے تھے، باقی 37 اونٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ذبح فرمائے۔ [صحيح مسلم]

قربانی کے لئے چھری تیز ہو :
چاہے قربانی کا جانور ہو یا عام ذبیحہ مسنون یہ ہے کہ چھری خوب تیز کر لی جائے تاکہ جانور آسانی سے ذبح ہو جائے، حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «إذا ذبحتم فأحسنوا الذبح وليحد أحدكم شفرته و ليرح ذبيحته» [صحيح سنن أبى داؤد]
”یعنی جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو اور چاہئے کہ تم میں سے ہر شخص اپنی چھری کو تیز کر لے اور اپنے ذبیحہ کو راحت پہونچائے“۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے قدرے ایک طویل حدیث مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے چھری مانگی، اور فرمایا : «اشحذيها بحجر» [صحيح مسلم]
”یعنی اسے پتھر پر تیز کر دو“
چنانچہ انہوں نے اسے تیز کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری لی اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا اور اسے ذبح کیا۔

قربانی عیدگاہ کے پاس مسنون ہے :
اگر کوئی قانونی اور سماجی رکاوٹ نہ ہو تو قربانی عیدگاہ سے قریب کرنی مسنون ہے۔ اس لئے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم الله يذبح و ينحر بالمصلي» [صحيح بخاري]
یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا جانور عیدگاہ میں ذبح یا نحر فرماتے تھے۔

قربانی کا گوشت :
قربانی کے گوشت کے سلسلہ میں حدیث کے اندر یہ ہدایت ہے کہ آدمی خود کھائے، بچا کر رکھ لے اور صدقہ کرے، جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «كلوا و ادخروا وتصدقوا» [صحيح مسلم]
یعنی قربانی کا گوشت خود کھاؤ، ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو۔
سورۃ الحج کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے قربانی کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
«فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ» [22-الحج:28]
”پھر تم خود بھی اس کا گوشت کھاؤ اور بھوکے فقیر کو بھی کھلاؤ“۔
پھر سورۃ الحج میں آگے ارشاد ہوا :
«فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ» [22-الحج:36]
”اسے خود بھی کھاؤ، اور مسکین سوال سے رکنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ۔“
مفسر قرآن مولانا حافظ صلاح الدین یوسف فرماتے ہیں کہ بعض نے ”قانع“ کے معنی سائل اور ”معتر“ کے معنی زائر یعنی ملاقاتی کے کئے ہیں، بہرحال اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ قربانی کے گو شت کے تین حصے کئے جائیں، ایک اپنے لئے، دوسرا ملاقاتوں اور رشتہ داروں کے لئے اور تیسرا سائلین اور معاشرہ کے ضرورت مند افراد کے لئے، جس کی تائید میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں نے تمہیں پہلے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کر کے رکھنے سے منع کیا تھا لیکن اب تمہیں اجازت ہے کہ کھاؤ اور جو مناسب سمجھو ذخیرہ کرو۔“ دوسری روایت کے الفاظ ہیں : ”پس کھاؤ، ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو۔“ ایک اور روایت کے الفاظ اس طرح ہیں : ”پس کھاؤ، کھلاؤ اور صدقہ کر۔“ [صحيح بخاري و صحيح مسلم و سنن]
پھر اس سلسلہ میں گفتگو کرتے ہوئے موصوف نے آگے تحریر فرمایا کہ ”درحقیقت کسی بھی آیت یا حدیث سے اس طرح کے دو یا تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم نہیں نکلتا، بلکہ ان میں کھانے کھلانے کا حکم ہے، اس لئے اس اطلاق کو اپنی جگہ برقرار رہنا چاہئے اور کسی تقسیم کا پابند نہیں بنانا چاہئے۔

قربانی کا گوشت غیر مسلموں کو دینا :
حدیث میں وارد لفظ «تصدقوا» کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے اور قربانی کو صدقہ پر قیاس کرتے ہوئے امام احمد بن حنبل، امام ثور، امام حسن اور اصحاب الرای کا خیال ہے کہ قربانی کا گوشت غیر مسلموں کو بھی دیا جا سکتا ہے۔ [المغني 633/8]
اس رخصت کا فائدہ اٹھا کر بعض لوگ قربانی کے گوشت کا زیادہ تر حصہ غیر مسلم سیاسی قائدین، حکام اور افسران کو ہدیہ کر دیتے ہیں یا پرتکلف دعوت کا اہتمام کر کے انہیں کھلا دیتے ہیں، تاکہ ان کے اثر و رسوخ سے وہ فائدہ اٹھا سکیں، یعنی یہ چیز بیع کے مشابہ ہو گئی اور قربانی کے گوشت کا بیچنا درست نہیں ہے، اسی طرح بعض غیر مسلموں کے بارے میں شبہ بلکہ یقین ہوتا ہے کہ قربانی کا گوشت وہ شراب جیسی گندی چیز کے ساتھ استعمال کریں گے، جہاں ایسا اندیشہ ہو ان کو دینے سے احتراز ہی اولیٰ ہے، البتہ اپنے غیر مسلم پڑوسیوں اور دوسرے برادران وطن متعلقین کو جن کے بارے میں اس قسم کا شبہ اور اندیشہ نہیں انھیں قربانی کا گوشت دینے میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں۔

قربانی کا گوشت و پوست قصاب کو دینا :
”قربانی کا گو شت یا اس کی کھال قصاب کو بطور اجرت دینی درست نہیں ہے، اس لئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قربانی کی نگرانی پر مامور کرتے ہوئے حکم دیا کہ اس کے گوشت و پوست کو تقسیم کر دوں اور ان میں سے قصاب کو کچھ نہ دوں۔“ [بخاري و مسلم]
لیکن اگر قصاب محتاج ہو تو بطور اجرت نہیں بلکہ بطور استحقاق اس کو بھی دیا جا سکتا ہے۔ [المغني : 633/8]
قربانی کے جانور کی کھال آدمی خود اپنی استعمال میں لا سکتا ہے، یعنی اس کا جوتا، مشکیزہ، جیکٹ وغیرہ بنا کر اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، اور اگر خود فائدہ نہ اٹھانا چاہے تو اسے صدقہ کر دے [مسند أحمد]
البتہ کھال فروخت کر کے اس کی قیمت سے خود انتفاع درست نہیں ہے۔

میت کی جانب سے قربانی :
میت کی جانب سے قربانی کی مشروعیت مختلف فیہ ہے۔ بعض علماء اس کے جواز کے قائل ہیں اور بعض اسے درست نہیں کہتے، تاہم کسی بھی صحیح حدیث میں میت کی جانب سے قربانی کا ذکر نہیں، جن علماء نے اجازت دی ہے انہوں نے اسے صدقہ پر محمول کیا ہے، اس لئے انہوں نے یہ بھی صراحت فرما دی کہ اگر صرف میت کی جانب سے کوئی قربانی کرے تو اسے پورا گوشت صدقہ کر دینا چاہئے اس میں سے خود کچھ نہ کھانا چاہئے۔
میت کی جانب سے قربانی جائز قرار دینے والوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے جس میں یہ ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وصیت فرمائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے وہ ہر سال ایک قربانی کرتے رہیں۔“ یہ جامع ترمذی کی روایت ہے، اولاً : تو یہ حدیث ضعیف ہے، ثانیاً : اگر اس کو صحیح تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس سے مطلقاً میت کی جانب سے قربانی کے جواز کا ثبوت نہیں ملتا، زیادہ سے زیادہ یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی خیر کی وصیت کر کے فوت ہو تو ورثا کو اس کی وصیت نافذ کرنا چاہئے۔
شیخ الحدیث علامہ عبد اللہ رحمانی رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں بحث کرنے کے بعد اپنے استاد صاحب تحفہ علامہ عبدالرحمن محدث مبارکپوری رحمہ اللہ کا قول نقل فرمایا ہے کہ : «لم أجد فى التضحية عن الميت منفردا حديثا مرفوعا صحيحا، و أما حديث على هذا فضعيف، فإذا ضحى الرجل عن الميت منفردا فالإحتياط أن يتصدق بها كلها» [مرعاة المفاتيح : 359/2]
تنہا میت کی جانب سے قربانی کے سلسلہ میں مجھے کوئی صحیح، مرفوع ایک حدیث بھی نہ ملی، رہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث تو یہ ضعیف ہے، اس لئے اگر کوئی شخص تنہا صرف میت کی جانب سے قربانی کرے تو احتیاط اسی میں ہے کہ پور ا گوشت صدقہ کر دے۔
میت کی جانب سے قربانی ظاہر ہے اس کو ثواب پہنچانے کے مقصد ہی سے کی جاتی ہے، اس لئے اگر یہ مقصد عام مالی صدقہ کے ذریعہ حاصل کیا جائے جس کے بارے میں علما متفق ہیں تو زیادہ بہتر ہے۔
اگر کوئی شخص اپنی قربانی میں اپنے زندہ اہل خانہ کے ساتھ اپنے مردوں کو بھی شامل کر لے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ قربانی کے اجر و ثواب میں ان شاء اللہ مردے بھی شریک رہیں گے اور اسی قربانی کا گوشت سب کھا بھی سکتے ہیں۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ کریں [مرعاة المفاتيح : 359/2]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے قربانی ؟
بعض نادان مسلمان اس بنیاد پر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی جانب سے قربانی فرمائی تھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے قربانی کر کے وہ قرض اتارنا چاہتے ہیں، یہ بہت بڑی نادانی ہے، بھلا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا کون کون سا قرض اتاریں گے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں مسلمانوں کے لئے سب سے بہتر عمل درود بھیجنا ہے، وہ اس عمل کے ذریعہ سے اللہ کی رحمت کے مستحق بنیں گے اور کسی طور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق بھی ادا ہوگا، اس لئے ہمیں اس کا اہتمام ضرور کرنا چاہئے۔
دوسری بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں اجر و ثواب کے ہم زیادہ محتاج ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو معصوم عن الخطا ہیں نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف ہیں، آپ کے لئے ایصال ثواب کرنے سے بہتر یہ ہے کہ بندہ اپنی مغفرت کی فکر کرے۔

قربانی کے مقاصد :
تقویٰ اور رضائے الہی :
قربانی ایک عبادت اور تقرب الہی کا اہم ذریعہ ہے، اس لئے اس کا بھی مقصد عام عبادات کی طرح صرف حصول تقویٰ اور رضائے الہی ہے، اس لئے نہ تو قربانی رسم و رواج سمجھ کر کرنی چاہئے اور نہ اسے گوشت خوری کی ایک تقریب سمجھنا چاہئے، بلکہ قربانی کرنے والے کے دل میں وہی جذبہ ایثار و قربانی موجزن رہنی چاہئے جو سیدنا حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے دل کے اندرتھی، اسی لئے قرآن کریم میں قربانی کے تعلق سے وضاحت کے ساتھ ہے۔
«لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنْكُمْ» [22-الحج:37]
”اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون، بلکہ اسے تو تمہارے دلوں کی پرہیز گاری پہنچتی ہے۔“
نیز حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کے حوالہ سے قرآن کریم کے اندر جس قربانی کا ذکر ہوا ہے اور جس میں صراحت ہے کہ ایک کی قربانی مقبول اور دوسرے کی مسترد ہو گئی، وہیں اس بھائی کی زبان سے جس کی قربانی بارگاہ الہی میں شرف قبول سے بہرہ ور ہوئی تھی یہ کہلوایا گیا ہے کہ ”اللہ تو صرف متقیوں کی قربانی قبول فرماتا ہے“ آیت ربانی ملاحظہ فرمائیں :
«وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ» [5-المائدة:27]
آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دو، ان دونوں نے ایک قربانی (نذر) پیش کی، ان میں سے ایک کی قربانی (نذر) تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا، اس نے (جس کی نذر مقبول ہوئی تھی) کہا: اللہ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔
احادیث شریفہ میں بھی اس جانب واضح اشارہ ہے کہ قربانی اخلاص نیت اور حصول تقویٰ کے جذبہ ہی سے مقبول ہوتی ہے، ریا و نمود کا ادنیٰ شائبہ یا کوئی اور مقصد اس عمل کو ضائع اور اکارت کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو اس عبادت کے اندر اخلاص پیدا کرنا چاہئے۔
جذبہ ایثار، خود سپردگی اور فدا کاری کا اقرار :
پوری دنیا کے مسلمانوں کا عید الاضحی اور ایام تشریق میں سنت ابراہیمی کو زندہ کرتے ہوئے قربانی کرنا دراصل اس ذبح عظیم کی یاد تازہ کرتا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا ایک نا قابل فراموش اور غیر معمولی واقعہ ہے، جب اللہ کے اس مخلص بندہ نے خواب کو حقیقت کا روپ دے دیا اور علم و بردبار اور آداب فرزندی سے واقف کار بیٹے کی حلق پر ایک مشفق باپ ہوتے ہوئے بھی چھری رکھ کر فدا کاری کی لازوال مثال قائم کر دی، یہ منظر دیکھ کر یقیناً زمین تھرا گئی ہو گی اور آسمان لرز اٹھا ہو گا، مگر اللہ کے اس خلیل کے ہاتھ میں نہ معمولی لغزش آئی اور نہ ہی اس کا پائے ثبات ادھر سے ادھر ہوا، اللہ کے حکم کی بجا آوری اور اس کی رضا کے لئے ابراہیم علیہ السلام اپنے چہیتے بیٹے اسماعیل کو اللہ کے حضور قربان کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے، بیٹے سے مشورہ بھی کیا کہ دیکھیں بیٹا امتثال الہی کے لئے کس حد تک تیار ہے ؟ قربان جائیے وہ بھی اس آزمائش میں سرخرو اور کامیاب نکلا اور مومنانہ جواب دیا کہ ابا جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے۔
یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
پھر بیٹے کو پیشانی کے بل زمین پر لٹا دیا گیا اور چھری گردن پہ رکھ دی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ بس ابراہیم بس ! تم نے تو اپنے خواب کو بھی سچ کر دکھایا اور اسماعیل کی جگہ ایک مینڈھا فرا ہم کر کے ان کے جذبہ قربانی کی تسکین کا سامان کیا اور اس سنت کو دوسروں میں بھی جاری و ساری کر دیا، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس واقعہ کی منظر کشی ان الفاظ میں فرمائی ہے :
«فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ ‎ ﴿١٠٣﴾ ‏ وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ ‎ ﴿١٠٤﴾ ‏ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‎ ﴿١٠٥﴾ ‏ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ ‎ ﴿١٠٦﴾ ‏ وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ‎ ﴿١٠٧﴾ ‏ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ‎ ﴿١٠٨﴾ ‏ سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ‎ ﴿١٠٩﴾ ‏ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‎ ﴿١١٠﴾ ‏ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ» [37-الصافات:103]
”پھر جب وہ بچہ اس عمر کو پہونچا کہ ان کے ساتھ چلے پھرے، تو انہوں (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا : میرے پیارے بیٹے میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے ؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا ! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے، ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ غرض جب دونوں مطیع ہو گئے اور انہوں (باپ) نے اس (بیٹے) کو پیشانی (یا پہلو) کے بل لٹا دیا تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم ! (بس کر) یقیناً تو نے تو اپنے خواب کو سچا کر دکھایا، بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزاء دیتے ہیں، درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا، اور ہم نے ایک بڑ ا ذبیحہ (جنت سے لایا ہوا مینڈھا) اس کے فدیہ میں دے دیا، اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا، ابراہیم پر سلام ہو، ہم نیکوکاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں، بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا۔“
گویا قربانی عظیم الشان عبادت مسلمانوں کو ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اطاعت شعار خانوادہ کی یاد تازہ رکھنے کے لئے مشروع ہوئی ہے کہ اللہ کی اطاعت و عبادت کے ساتھ وہ اپنے اندر ابراہیم، ہاجرہ اور اسماعیل علیہم الصلوۃ والسلام کی روح پیدا کریں اور فدا کاری و خود سپردگی کے ان اوصاف سے خود کو آراستہ رکھیں جن کے سبب اللہ کے یہاں ان کی پذیرائی اور مقبولیت ہوئی۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر قربانی کرنے والوں کے ذہن و دماغ میں ذبح کی یاد تازہ نہ رہے، حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کے خانوادہ کا تصور نہ رہے، ان کی سیرت و کردار سے یہ نابلد اور ناواقف رہیں اور ان کے اوصاف حمیدہ سے خود کو آراستہ کرنے کا جذبہ اور تڑپ ان کے اندر نہ ہو تو یہ عبادت بے معنی اور بے کیف ہو کر رہ جائے گی، اس سے وہ روحانی لذت حاصل نہ ہو گی جس کا حصول اس عبادت کا مقصد ہے، بلکہ اس کی حیثیت محض رسم و رواج اور گوشت خوری کی ایک تقریب بن کر رہ جائے گی، اور اس کا مقصد فوت ہو جائے گا، اس لئے قربانی کرنے والوں کو بالخصوص اور عام مسلمانوں کو بالعموم سیرت ابراہیمی سے اپنے ایمان میں تازگی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور موجودہ حالات میں انہیں مشعل راہ بنا کر اپنے ایمان کی حفاظت اور دین برحق پر استقامت کی مشق کرنی چا ہے، یہی پیغام ہے حج و قربانی کا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری نیتوں میں اخلاص عطا فرمائے اور ہماری جملہ طاعات و عبادات اپنی مرضی کے لیے انجام دینے کی توفیق بخشے اور انہیں اپنے فضل خاص سے قبول فرمائے، «ربنا تقبل منا إنك أنت السميع العليم» آمين۔
وصلى الله على نبينا محمد و آله و صحبه و بارك وسلم۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے