سوال
فقراء و مساکین کی موجودگی میں قربانی کی کھالوں کو عیدگاہ میں مٹی ڈالوانے اور چار دیواری کروانے پر خرچ کرنا قرآن و حدیث کی روشنی میں کیسا ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 424 میں حدیث مبارک ہے:
«أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ نَبِیَّ اﷲِ ﷺ أَمَرَهُ أَنْ يَقُوْمَ عَلَی بُدْنِهِ وَأَمَرَهُ أَنْ يَّقْسِمَ بُدْنَهُ کُلَّهَا لُحُوْمَهَا وَجُلُوْدَهَا وَجِلاَلَهَا فِی الْمَسَاکِيْنِ ، وَلاَ يُعْطِیْ فِی جِزَارَتِهَا مِنْهَا شَيْئًا»
(صحیح مسلم – کتاب الحج – باب الصدقة بلحوم الهدايا وجلودها وجلالها وان لايعطى الجزار منها شيئا وجواز الاستنابة فى القيام عليها)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں اپنی قربانی کے اونٹوں کی نگرانی اور دیکھ بھال کا حکم دیا۔ آپ ﷺ نے یہ بھی حکم دیا کہ ان قربانیوں کے:
- گوشت
- کھالیں
- جل (اونٹ کی پیٹھ پر پڑی ہوئی چٹائی یا کپڑا)
تمام چیزیں مساکین میں تقسیم کر دی جائیں، اور ذبح کرنے والے کو اس قربانی میں سے کوئی چیز اجرت کے طور پر نہ دی جائے۔
لہٰذا، اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ:
- قربانی کی کھال کو مساکین و فقراء میں تقسیم کرنا ہی نبی اکرم ﷺ کی سنت و ہدایت ہے۔
- قربانی کی کھال کو کسی تعمیراتی کام جیسے عیدگاہ میں مٹی ڈلوانے یا چار دیواری کروانے میں استعمال کرنا اس ہدایت کے خلاف ہے، خاص طور پر جب فقراء و مساکین موجود ہوں اور وہ اس کے زیادہ مستحق ہوں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب