قرآن کے ظاہری و باطنی معنی اور تقلید کی حقیقت
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 60

سوال

ایک مولوی صاحب کہتے ہیں کہ قرآن کے دو معانی ہوتے ہیں: ایک ظاہری اور دوسرا باطنی۔
ظاہری معنی تو ہر صاحبِ علم سمجھ سکتا ہے، لیکن باطنی کو کسی امام و پیشوا کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس لیے کسی ’’امام‘‘ کی تقلید لازمی ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ظاہری و باطنی معنی کی تقسیم

◄ اگر قرآن حکیم کے ظاہری اور باطنی معانی کی تقسیم سے مراد یہ ہے کہ:

ظاہری معنی وہ ہیں جو قرآن کے الفاظِ مبارکہ سے لغت کے اعتبار سے سمجھے جاتے ہیں۔
باطنی معنی وہ ہیں جو اشارۃً، اقتضاءً یا دلالۃً معلوم ہوتے ہیں۔
✿ اس کے لیے استنباط و استخراج کی صلاحیت یا الفاظ کے حقائقِ شرعیہ اور لغویہ کا علم ہونا ضروری ہے۔

تو یہ تقسیم درست ہے۔

تقلید کی ضرورت؟

◄ ان معانی کو جاننے کے لیے اہلِ علم کے لیے تقلید کیوں ضروری ہو؟
◄ آج کل لوگوں کی ذہنیت یہ ہے کہ لڑتے ہیں لیکن ہاتھ میں تلوار نہیں۔
◄ استنباط و استخراج کے لیے اصول و قواعد پہلے ہی مقرر ہوچکے ہیں۔
اصول روایت اور اصول درایت وضع کر دیے گئے ہیں۔
◄ ایک صاحبِ علم جب ان اصول و قواعد کو سامنے رکھے تو مسائل و معانی کے استخراج میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔
◄ فقہ کی کتب میں بے شمار مسائل کی تفریعات درج ہیں۔
◄ تمام مقلدین ان پر آمنا و صدقنا کہہ کر بیٹھے ہیں اور ان مؤلفین کی قوتِ استنباط کے معترف بھی ہیں۔

سوالِ انصاف

◄ مثال کے طور پر صاحب ہدایہ وغیرہ۔
◄ انصاف سے بتائیے: کیا یہ بھی مقلد ہیں؟
◄ وہ اپنے آپ کو تو مقلد کہتے ہیں، لیکن ایسی تفریع اور تخریج کا تقلید سے کیا تعلق؟
مقلد کا تو یہ فرض ہے کہ صرف یہ کہے: ’’امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ فرمایا ہے۔‘‘
◄ باقی اشارہ، اقتضاء وغیرہ سے تفریع یا استخراج اس کے دائرۂ عمل سے باہر ہے۔

حقائقِ شرعیہ اور مطالعۂ حدیث

◄ حقائقِ شرعیہ اور کتاب و سنت کی گہرائی سے تحقیق یا کتبِ حدیث کا مطالعہ دل کی چاہت کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔
◄ اس کے لیے کسی امام یا پیشوا کی تقلید کی کوئی ضرورت نہیں۔

اگر مراد "الہامی معنی” ہو

◄ اگر تقسیم کا مقصد یہ ہو کہ قرآن کے الفاظ کا کوئی ایسا معنی ہے جو اصول و قواعد کے تحت حاصل نہیں ہوسکتا، بلکہ وہ الہام سے ملتا ہے:
✿ تو الہام وہی معتبر ہے جو شریعت کے موافق ہو۔
✿ جو الہام کتاب و سنت کے خلاف ہو، وہ بالکل ناقابلِ اعتبار ہے۔
◄ یہ بھی ضروری نہیں کہ ایسا الہام صرف انہی ’’ائمہ‘‘ کو ہوتا ہو جنہیں عوام نے زبردستی اپنا پیشوا مان رکھا ہے۔
◄ اگر کوئی خدا پرست شخص ایسا الہامی معنی پیش کرے تو بھی اسے ظاہری شریعت پر پرکھا جائے گا۔
◄ اگر وہ موافق ہوا تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خصوصی انعام کہا جائے گا۔
◄ لیکن ایسے الہامی مطالب کا جاننا واجباتِ شرعیہ میں شامل نہیں۔
◄ جب ان کا علم فرض ہی نہیں تو اس کے لیے تقلید کیوں لازم ہو؟

اگر مراد "باطل معنی” ہو

◄ اگر اس تقسیم کا مقصد وہ ہے جو بعض ملحد اور زندیق لوگ کہتے ہیں کہ:
✿ قرآن کے دو معنی ہیں: ایک ظاہر، دوسرا باطن۔
✿ اور باطنی معنی بظاہر کے خلاف ہوتا ہے۔
◄ تو یہ بات بالکل باطل ہے۔

مثال

قرآن کہتا ہے:
﴿وَٱلسَّارِ‌قُ وَٱلسَّارِ‌قَةُ فَٱقْطَعُوٓا۟ أَيْدِيَهُمَا﴾ (المائدة:٣٨)
’’چور مرد اور عورت کا ہاتھ کاٹ ڈالو۔‘‘

◄ اب اگر کوئی بے دین شخص کہے کہ اس کا ظاہری مطلب یہی ہے لیکن باطنی مطلب کچھ اور ہے جو اس حکم کو بدل دیتا ہے، تو کیا یہ معتبر ہوگا؟
◄ کیا کوئی عقل مند شخص ایسے دعوے پر یقین کرسکتا ہے؟

قرآن کی گواہی

ایسے باطنی معنی گھڑنے والے لوگ وہ ہیں جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا:
﴿وَجَعَلْنَـٰهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى ٱلنَّارِ﴾‌ (القصص:٤١)
’’ہم نے ان کو ایسے امام بنایا جو خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی جہنم کی طرف بلاتے ہیں۔‘‘

خلاصہ

✿ اگر باطنی معنی سے مراد استنباطی و استخراجی مسائل اور احکام ہیں تو ان کے لیے علماء نے اصول و ضوابط مقرر کیے ہیں۔
✿ ان اصولوں پر عمل کرکے کتاب و سنت سے مسائل اخذ کیے جاسکتے ہیں۔
✿ ان کے لیے تقلید کو لازمی سمجھنا جہالت ہے۔
✿ لیکن اگر باطنی معنی سے مراد وہ ہے جو ملحدین کا نظریہ ہے تو وہ سراسر باطل ہے۔
✿ لہٰذا اس تقسیم کو تقلیدِ شخصی کے جواز کے لیے دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے