اعتراض:
یہ اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کو معجزہ قرار دیا جاتا ہے، اور یہ کہا جاتا ہے کہ بلیغ کلام کا مقصد یہ ہے کہ وہ کلام ہر انسان کی سمجھ میں فوراً آجائے، پھر کیوں قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے انسانی وضاحت اور وکالت کی ضرورت پڑتی ہے؟
جواب:
1. قرآن کا فصیح و بلیغ ہونا:
قرآن کریم واقعی اپنے زمانے اور بعد کے ہر دور کے لیے فصیح و بلیغ کلام ہے۔ عربی زبان کے ماہرین اس کی بلاغت، لفظوں کے انتخاب اور انداز بیان کی غیر معمولی خوبصورتی کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ قرآن ایک عام کتاب نہیں، بلکہ اللہ کا کلام ہے، جو زندگی کے ہر پہلو کو احاطہ کیے ہوئے ہے اور گہرے روحانی، اخلاقی، اور فلسفیانہ مسائل پر گفتگو کرتا ہے۔ قرآن کی فصاحت کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا ہر حصہ فوری اور بغیر علم کے ہر کسی کی سمجھ میں آ جائے گا، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ جو اس زبان اور علم کا اہل ہے، اس کے لیے یہ واضح اور روشن ہوگا۔
2. زبان اور علم کی اہمیت:
ہر علم کی اپنی مخصوص زبان ہوتی ہے اور اس کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لیے اس زبان اور علم کا جاننا ضروری ہوتا ہے۔ جیسے کہ اگر کوئی شخص سائنس یا فلسفہ کے کسی دقیق موضوع کو بغیر علم کے سمجھنے کی کوشش کرے، تو اسے دشواری پیش آئے گی۔ قرآن بھی ایک ایسی کتاب ہے جو عربی زبان میں نازل ہوئی، اور اس کے سمجھنے کے لیے عربی زبان اور علوم قرآنیہ کی بنیادی سمجھ ضروری ہے۔ یہ بات عقل کے خلاف نہیں کہ ایک اعلیٰ درجے کا کلام سمجھنے کے لیے علم اور تحقیق درکار ہو۔
3. انسانی وضاحت کی ضرورت:
یہ اعتراض کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے انسانی وضاحت کیوں ضروری ہے، دراصل ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔ ہر علمی مضمون، چاہے وہ دینی ہو یا دنیاوی، سمجھنے کے لیے اساتذہ اور مفسرین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کی تفہیم کے لیے علماء اور مفسرین کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ ہم اس کے گہرے معانی تک پہنچ سکیں۔ یہ قرآن کی کمزوری نہیں، بلکہ ہماری محدودیت ہے جو ہمیں استاد کی ضرورت کی طرف لے جاتی ہے۔
4. تعصب اور تنقید کا مسئلہ:
اکثر اعتراض کرنے والے پہلے سے ذہنی طور پر متعصب ہوتے ہیں اور ان کے سوالات علم کی جستجو کے بجائے تنقید اور اعتراض کی نیت سے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اگر حقائق پیش کیے جائیں تب بھی ان کے دلائل کو قبول کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، کیونکہ وہ پہلے سے اپنے ذہن کو ایک خاص زاویے سے مقید کر چکے ہوتے ہیں۔ اس لیے قرآن کے پیغام کو سمجھنے کے لیے پہلے نیت صاف اور کھلی ہونی چاہیے۔
نتیجہ:
قرآن کی فصاحت و بلاغت اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن اس کو سمجھنے کے لیے زبان اور علم کا جاننا ضروری ہے۔ قرآن کریم جیسے اعلیٰ درجے کے کلام کی تفہیم کے لیے انسانی وضاحت کی ضرورت ہماری کم فہمی کی نشانی ہے، نہ کہ قرآن کی۔ اور یہ بات بھی اہم ہے کہ قرآن کو کھلے دل اور نیت کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جائے، نہ کہ پہلے سے ذہن میں اعتراضات لے کر۔