قرآن کی روشنی میں مسلم، مومن اور اہلحدیث، سلفی یا اثری کے نام کا مفہوم
ماخوذ : قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 01، ص 632

سوال

قرآن کی رو سے ہمارا نام صرف "مسلم” ہے، تو پھر اہلحدیث، سلفی یا اثری کیوں کہا جاتا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید میں ارشاد ہے: ﴿هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ﴾ (الحج:۷۸)
”اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا۔“

اسی طرح قرآن مجید میں یہ بھی فرمایا گیا ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ﴾ (البقرۃ:۶۲)
”یقیناً جو لوگ ایمان لائے، اور جو یہودی ہوئے، اور نصاریٰ، اور صابی۔“

پھر فرمایا گیا: ﴿وَتُوبُوا إِلَى اللّٰهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ﴾ (النور:۳۱، پ:۱۸)
”اور اللہ کی طرف سب کے سب توبہ کرو، اے ایمان والو۔“

اور فرمایا گیا: ﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ﴾ (التوبۃ:۱۰۰)
”اور سبقت لے جانے والے، اولین مہاجرین اور انصار۔“

ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ اہل اسلام کے لیے قرآن مجید میں صرف ”مسلم“ ہی نہیں بلکہ ”مومن“، ”مہاجر“ اور ”انصار“ کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔

پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا﴾ (الحجرات:۱۳)
”اور ہم نے تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔“

اسی بنیاد پر یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ”اہلحدیث“، ”سلفی“ اور ”اثری“ جیسے القاب صرف تعارف کے لیے ہیں، یہ ”مسلم“ یا ”مومن“ کے متبادل نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے مقابلے میں رکھے گئے ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے