سوال
دینی امور میں قرآن پاک کی تعلیم دینا، امامت کرانا، خطبہ دینا، جلسوں میں تقریر کے لیے جانا وغیرہ پر اجرت لینا صحیح حدیث کے مطابق ہے یا غلط ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن کریم یا تبلیغ دین کے لیے صرف قرآن پاک کی تلاوت کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
﴿قُل لَّآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا﴾ (الشورى: ٢٣)
البتہ قرآن کریم پڑھانا، اس کے علوم کی تعلیم دینا اور تدریس کرنا ایسی صورتیں ہیں جن پر اجرت لینا درست ہے۔
احادیث کی روشنی میں
صحیح بخاری میں یہ واقعہ موجود ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے ایک شخص کو جسے سانپ نے کاٹا تھا، سورۃ الفاتحہ پڑھ کر دم کیا۔ وہ شخص اچھا ہوگیا تو انہوں نے اس کے بدلے بکریاں لیں۔ نبی کریم ﷺ نے اس معاوضہ کو برقرار رکھا اور اسے جائز قرار دیا۔ ساتھ ہی آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
"قرآن پر جو تم لیتے ہو وہ زیادہ حق رکھتا ہے۔”
تفصیل اور وضاحت
◈ تبلیغ دین یا صرف قرآن سنانے پر اجرت لینا:
یہ درست نہیں، کیونکہ یہ دین کی خدمت ہے جس کا صلہ اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔
◈ قرآن پڑھانا اور تعلیم دینا:
یہ محض تبلیغ نہیں بلکہ محنت اور تدریس ہے۔ اس لیے اس پر اجرت لینا جائز ہے۔
◈ امامت و خطابت:
اگر کوئی شخص غریب و مسکین ہو اور اپنے روزگار یا کاروبار کو ترک کرکے امامت و خطابت کے فرائض انجام دے تو اس کو معاوضہ دیا جانا چاہیے۔ یہ دین کی تبلیغ کی قیمت نہیں بلکہ اس محنت کا صلہ ہے جو وہ اپنے ذاتی روزگار کو چھوڑ کر ادا کر رہا ہے۔ اگر وہ اس پر مقرر نہ ہوتا تو کوئی دوسرا ذریعہ معاش اختیار کرتا۔
◈ جلسوں میں شرکت:
اگر جلسہ دور دراز مقام پر ہو اور وہاں جانے کے لیے اخراجات درکار ہوں تو بلانے والوں پر لازم ہے کہ اتنا خرچ دیں جس سے عالم یا خطیب وہاں پہنچ سکے۔
✿ لیکن: تبلیغ کے بدلے طے شدہ رقم لینا درست نہیں۔
✿ ہاں: اگر بلانے والے اپنی خوشی اور رضا سے (بغیر تقاضے کے) ہدیہ دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
ماحصل
◈ تبلیغ و قرآن سنانے پر اجرت لینا ناجائز ہے۔
◈ قرآن کی تعلیم، امامت، خطابت اور تدریس پر اجرت لینا جائز ہے کیونکہ یہ محنت اور وقت صرف کرنے کا معاوضہ ہے۔
◈ جلسوں کے سفر کے اخراجات بلانے والوں کو ادا کرنے چاہئیں۔
◈ تبلیغ کے بدلے طے شدہ اجرت لینا منع ہے، البتہ تحفہ و ہدیہ قبول کیا جاسکتا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب