قرآن کی آمد سے عربی ادب اور فکر میں انقلاب
تحریر: پروفیسر غلام احمد حریری

اسلام سے پہلے زندگی کی محدود تصور تھی، لیکن اسلام کے ظہور نے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ اس تبدیلی سے انسانی خیالات اور افکار میں انقلابی تبدیلیاں آئیں۔ قرآن کے آفاقی پیغام نے زندگی کے افق کو وسعت دی، جس کے نتیجے میں ہر شعبہ حیات، خصوصاً ادب و زبان پر نمایاں اثرات مرتب ہوئے۔

قرآن کا ادبی اثر اور عربی زبان کی تجدید

قرآن نے ادب کو فکر کی آزادی، وسعتِ نظر، پاکیزگیِ تخیل اور بلندئ معنی سے نوازا۔ عربی زبان میں پہلے محض جذبات اور اظہار کا زور تھا، لیکن قرآن نے ادب کو اعلیٰ جذبات کے اظہار کا آداب سکھایا اور اسے معنوی و صوری حسن سے مزین کیا۔ عربی ادب کا محور قرآن مجید بنا، جس نے عربی زبان کو دنیا بھر کے علوم و افکار سے بھرپور بنایا۔ ادب جاہلی کا محفوظ سرمایہ بھی اسی مقصد سے جمع کیا گیا کہ قرآن کی زبان کو محفوظ رکھا جا سکے۔

علم و فنون کی ترقی میں قرآن کی راہنمائی

قرآن کی تعلیمات کے تحت علم صرف و نحو، معانی و بیان، لغت و ادب، اصول فقہ، اور تفسیر جیسے علوم کی بنیاد رکھی گئی۔ قرآن نے ان علوم کو فروغ دیا اور انہیں دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچایا۔ قرآن مجید کی برکت سے عربی زبان مختلف آزمائشوں سے بچتی رہی، جبکہ بہت سی دیگر زبانیں محدود وقت میں مٹ گئیں۔

قرآن کی آفاقی تاثیر

قرآن نے ادب کے زاویوں کو بدل دیا اور ادب کو افادیت، صداقت، اور نفع بخشی کی طرف مائل کیا۔ اس نے قدیم تصور "إن أعذب شعرا کذبه” کی نفی کرتے ہوئے ادب کو عدل، خدمتِ انسانیت، حق و صداقت، عفت و حیا اور خدا پرستی کی طرف موڑ دیا۔ اس نے معاشرتی اقدار کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا، یاس و قنوط سے ادب کو آزاد کر کے جہد مسلسل اور حیات آفرین رجائیت کی طرف مائل کیا۔

ادب میں نئی طرزِ فکر

قرآن نے ادب کے لیے نئے اصول و معیار متعین کیے، جن میں مدح و ہجو کے نئے پیمانے، اور اعلیٰ صفات کو اجاگر کرنے کی تحریک شامل ہے۔ عربی ادب میں وحدتِ عالم، وحدت انسانیت، حریت فکر اور اخلاقی قدریں قرآن کی تعلیمات کی بدولت پروان چڑھیں۔

عربی نثر اور شاعری پر قرآن کا اثر

خلفائے راشدین کے عہد میں اسلامی مملکت کے وسیع ہونے اور سیاسی مسائل کے بڑھنے سے عربی نثر کو زیادہ فروغ ملا۔ قرآن کے زیر اثر اس دور کی نثر میں سادگی اور وقار نمایاں ہوئے۔ اس طرح عربی نثر کا مقام عربی شاعری سے بلند ہوگیا۔

شاعری میں قرآن کے اثرات

اسلامی تحریک نے شاعری کے مقاصد کو تبدیل کر دیا، اور جاہلی شاعری کے مقابلے میں اسلامی عہد کی شاعری زیادہ نرم و لطیف ہوگئی۔ زبان شستہ، پاکیزہ اور صاف ہوگئی، اور ابن خلدون کے مطابق اسلامی عہد کی شاعری جاہلی شاعری سے کہیں بلند تھی۔

قرآن کے ذریعے عربی تنقید کی ترقی

عربی تنقید میں قرآن کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ تنقید کے اصول قرآن سے اخذ کیے گئے، اور مختلف صدیوں کے ناقدین نے قرآن کو ادبی اور دینی مقاصد کا مرکز بنایا۔ مثلا، ابوالہلال عسکری نے اپنی کتاب "الصناعتیں” میں لکھا کہ اس کتاب کے ادبی اور دینی دونوں مقاصد ہیں۔

بدیع، معانی اور بیان پر قرآن کا اثر

قرآن نے علم بدیع، علم بیان، اور معانی پر گہرا اثر ڈالا۔ تیسری صدی ہجری میں جاحظ نے الفاظ و معانی کی بحث اٹھائی، جس کا جواب عبدالقاہر جرجانی نے دیا اور حسنِ کلام کو نظمِ معانی میں قرار دیا۔ اس سے عربی ادب میں ایک نئی فکری جہت پیدا ہوئی۔

اعجاز القرآن اور تنقید

ابوبکر باقلانی کی "اعجاز القرآن” تنقید کی اہم کتابوں میں شمار ہوتی ہے، جس میں انہوں نے مختلف مسائل پر قرآن کے فنی پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ قرآن میں حسن کلام کی بنیادی وجہ اس کا نظم و ترتیب اور معنوی لطافت ہے، جس کی کوئی نظیر نہیں۔

باقلانی کے مطابق قرآن کے کلام میں ایسا حسن ہے کہ جب اسے سنا جائے تو یہ دل میں اتر جاتا ہے، اور سننے والے کو ایسی ہی خوشی محسوس ہوتی ہے جیسے آب زلال پینے سے ہوتی ہے۔

قرآنی ادب کا معیار

باقلانی کے نزدیک قرآن کا کلام تمام شعراء اور نثر نگاروں سے فنی اعتبار سے منفرد اور منفعل ہے۔ وہ مزید بیان کرتے ہیں کہ ہر فنکار، ادیب اور شاعر اپنی صنف میں غلطی کرتا ہے، لیکن قرآن مجید کی زبان ہر عیب سے پاک ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے