سوال:
قرآن کریم کی تعظیم کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جواب:
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا حقیقی کلام ہے۔ اس کا احترام فرض ہے، قرآن کریم کی صیانت و حفاظت مومن کا فریضہ ہے۔ اس کی توہین و اہانت کفر ہے۔ قرآن کریم کی تفسیر اور معانی کے لیے اہل سنت مفسرین کی تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے۔ قرآن کی ہر آیت حق اور سچ ہے۔ قرآن کریم پر ایمان لانا واجب ہے، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے۔
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) فرماتے ہیں:
في آداب الناس كلهم مع القرآن قال الله تعالى:﴿وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ﴾ (الحج: 32) وفي صحيح مسلم عن تميم الداري رضى الله عنه إن النبى صلى الله عليه وسلم قال: الدين النصيحة قلنا لمن يا رسول الله قال: لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم وهذا الحديث أصل من أصول الإسلام … أن العلماء قالوا: نصيحة كتاب الله تعالى هي الإيمان بأنه كلام الله تعالى وتنزيله لا يشبهه شيء من كلام الخلق ولا يقدر الخلق على مثل سورة منه وتلاوته حق تلاوته وتحسينها وتدبرها والخشوع عندها وإقامة حروفه فى التلاوة والذب عنه لتأويل المحرفين وتعرض الملحدين والتصديق بما فيه والوقوف مع أحكامه وتفهم علومه وأمثاله والاعتبار بمواعظه والتفكر فى عجائبه والبحث عن عمومه وخصوصه وناسخه ومنسوخه ومجمله ومبينه وغير ذلك من أقسامه ونشر علومه والدعاء إليه وإلى جميع ما ذكرنا من نصيحته، وأجمعت الأمة على وجوب تعظيم القرآن العزيز على الإطلاق وتنزيهه وصيانته وأجمعوا على أن من جحد منه حرفا مجمعا عليه أو زاد حرفا لم يقرأ به أحد وهو عالم بذلك فهو كافر، وأجمعوا على أن من استخف بالقرآن أو بشيء منه أو بالمصحف أو ألقاه فى قاذورة أو كذب بشيء مما جاء به من حكم أو خبر أو نفى ما أثبته أو أثبت ما نفاه أو شك فى شيء من ذلك وهو عالم به فهو كافر، ويحرم تفسيره بغير علم والكلام فى معانيه لمن ليس من أهله وهذا مجمع عليه، وأما تفسير العلماء فحسن بالإجماع، ويحرم المراء فيه والجدال بغير حق
سارے کے سارے لوگوں کو چاہیے کہ قرآن کریم کے آداب کو ملحوظ رکھیں، اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: جو اللہ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے، تو یہ دل کے تقویٰ میں سے ہے۔ (الحج: 32)
صحیح مسلم میں سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین خیر خواہی کا نام ہے۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں اور رعایا کے لیے۔ یہ حدیث دین کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے۔ اہل علم فرماتے ہیں: کتاب اللہ کے ساتھ خیر خواہی یہ ہے کہ ایمان رکھا جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کا نازل کردہ ہے، مخلوق کا کوئی کلام اس کے مشابہ نہیں، نہ مخلوق اس جیسی ایک سورت لا سکتی ہے، (اس کی خیر خواہی میں سے ہے کہ) اس کی کماحقہ خوبصورت آواز میں تلاوت کی جائے، اس پر تدبر کیا جائے، تلاوت کے وقت خشوع و خضوع اختیار کیا جائے، تلاوت میں حروف کی صحیح ادائیگی کا خیال رکھا جائے، قرآن کو گمراہوں کی (باطل) تاویلات اور ملحدین کی مداخلت سے بچایا جائے، اس میں موجود ہر شے کی تصدیق کی جائے، اس کے احکامات سے آگاہی حاصل کی جائے، اس میں موجود علوم اور امثلہ کو سمجھا جائے، اس کی نصیحتوں سے عبرت پکڑی جائے، اس کے عجائب میں غور و فکر کیا جائے، اس کے عموم، خصوص، ناسخ، منسوخ، مجمل، مبین اور دیگر اقسام کے متعلق تحقیق کی جائے، اس کے علوم کو نشر کیا جائے، نیز قرآن اور ہماری ذکر کردہ تمام خیر خواہیوں کی طرف (لوگوں کو) دعوت دی جائے۔ امت کا اجماع ہے کہ مطلقاً قرآن عزیز کی تعظیم، تنزیہ اور حفاظت کرنا واجب ہے، نیز اجماع ہے کہ جو جان بوجھ کر قرآن کے ایک بھی حرف کہ جس پر اجماع ہو چکا ہے، کا انکار کرے یا اپنی طرف سے کوئی حرف زیادہ کرے کہ جس کی قرآت (اس سے پہلے) کسی (اہل علم) نے نہیں کی، تو وہ کافر ہے۔ اس پر امت کا اجماع ہے کہ جس نے قرآن یا اس کے ایک حصے یا مصحف کا استخفاف کیا، یا اسے گندگی میں پھینکا، یا قرآن کے کسی واضح حکم یا خبر کو جھٹلایا، یا جانتے بوجھتے اس شے کی نفی کی، جس کو قرآن نے ثابت کیا، یا اس شے کو ثابت کیا، جس کی قرآن نے نفی کی، یا قرآن کے کسی حصے میں شک کیا، تو وہ کافر ہے۔ نااہل کے لیے بغیر علم قرآن کریم کی تفسیر کرنا اور اس کے معانی میں کلام کرنا حرام ہے، یہ اجماعی و اتفاقی مسئلہ ہے۔ رہی اہل علم کی تفسیر، تو وہ بالا جماع مستحسن ہے، قرآن میں بغیر حق جھگڑنا حرام ہے۔
(المجموع: 170/2)